اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسلامی عقائد
اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔آسمان وزمین،انسان وحیوان اور ساری کائنات کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔وہی عبادت کا مستحق ہے دوسرا کوئی مستحق عبادت نہیں۔وہی سب کو روزی دیتا ہے۔امیری غریبی اور عزت وذلت سب اس کے اختیار میں ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ،کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ۔وہ ہر کھلی چھپی چیزوں کو جانتا ہے اور پست سے پست آوازوں کو سنتا ہے کوئی بھی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔وہ ہر چیز پر قادر ہے کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔
انتباہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہروہ چیز جو اس کی شان کے لائق ہے اُن سب چیزوں پر قادر ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے چاہے وہ اس کی شان کے لائق ہو یا نہ ہو۔یہاں تک کہ کوئی شیطان کے دھوکے میں آ کر یہ کہہ دے کہ نعوذ باللہ “اللہ تعالیٰ چوری اورشراب نوشی بھی کر سکتا ہےاورانسان کا روپ دھار کر کسی کے بدن میں بھی سما سکتا ہے وغیرہ” تعال اللہ عن ذالک علوا کبیرا۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب کرنے پر قادر تو ہے مگر کرتا نہیں ہے۔{نعوذ باللہ من ذالک} یہ عقیدہ بھی بالکل غلط ہے کیو نکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کے اندر یہ سب عیوب تو ہیں مگر وہ اُسے چھپائے رہتا ہے اوراسے کرتا نہیں ہے ۔حالانکہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات کو ہر نقص اورعیب سےپاک اور منزہ مانے ۔ کیو نکہ قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے لفظ “سبحان” کا استعمال فر مایا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے”ایسی ذات جو ہر قسم کے نقص وعیب سے پاک ہو۔اور محالات یا عیب کی چیزوں پر اللہ تعالیٰ کو قادر ماننااللہ تعالیٰ کو عیبی بتانا ہے۔
عقیدہ : اللہ تعالی نے قرآن شریف میں اپنی بہت ساری صفات کا ذکر فر مایا مثلا وہ “رؤف ورحیم ہے،سمیع وبصیر ہے،حلیم وکریم ہے،غیب یعنی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وغیرہ ۔پھر یہی صفتیں انبیائے کرام اور دوسروں کے لئے بھی بیان فر مایا۔تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب اللہ کے برابر یا اللہ کی طرح ہو گئے کیو نکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح کسی کی ذات نہیں اُسی طرح اس کی صفات کی طرح کسی کی صفات نہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔لَیۡسَ کَمِثْلِہٖ شَیۡءٌ [سورۃ الشوریٰ:11]ا س کی طرح کوئی چیز نہیں۔اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سب صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہیں یعنی بغیر کسی کے دئیے اُسے خود سے حاصل ہے اور دوسروں کو اسی کے عطا کرنے سے حاصل ہے۔اور ظاہر ہے کہ دینے والا اور لینے والا ایک طرح نہیں ہو سکتا۔اس لئے اگر ہم نبی کریم ﷺ کو غیب جا ننے والا یاحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے والا مانیں تو یہ ہرگز شرک نہ ہوگا کیو نکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے اور نبی ﷺ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرح ذاتی نہیں بلکہ اس کی عطا سے ہے۔اس لئے یہاں پر شرک کا کوئی تصور ہی نہیں۔ہاں اگر کوئی نبی ﷺ کے لئے غیب کی صفت یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مردوں کو زندہ کر نے کی صفت نہ مانے تو وہ قرآن کا انکار کرنے والا ہوگا کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عطا کا ذکر قرآن حکیم میں خود بیان فر مایا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے علم غیب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ: وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ۔(سورہ تکویر،آیت:۲۴) اور وہ(محمد ﷺ)غیب کی بات بتانے پر کنجوس نہیں ہیں۔ یعنی غیب کی بات بتاتے رہتے ہیں اور اس کے بتانے میں کنجوسی نہیں کرتے۔صاف بات ہے کہ غیب کی بات وہی بتا سکتا ہے جو غیب جانتا ہو۔لہذا اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو غیب کا علم عطا فر مایا اور حضور غیب جانتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ:
وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدْ جِئْتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ۙ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ
[سورہ آل عمران،آیت:۴۹]
اور(عیسیٰ) رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ کہتے ہوئے کہ بے شک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کچھ نشانیاں لے کر آیا ہوں۔(تو) میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ پرندہ بن جاتا ہے اللہ کے حکم سے۔اور میں پیدائشی اندھے اور سفید داغ والوں کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اللہ کے حکم سے۔اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو۔بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم مومن ہو۔
اس کے علاوہ قرآن شریف میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک صفت اپنے لئے بیان فر ماتا ہے پھر وہی صفت دوسرے کے لئے بھی استعمال فر ماتا ہے۔
ہم ذیل میں ان صفات کی ایک مختصر فہرست درج کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بھی بیان کیا ہےاور انبیائے کرام اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی۔آپ انہیں غور سے دیکھیں اور مذ کورہ وضاحت کو ہمیشہ یاد رکھیں تا کہ آپ کا ذہن پر یشان نہ ہو۔
غیر خدا کے لئے | اللہ تعالیٰ کے لئے |
رؤف رحیم۔حضور ﷺ کے لئے۔(سورہ توبہ،آیت:۱۲۸ | رؤف رحیم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔(سورہ نحل،آیت:۷ |
شہید۔ حضور ﷺ کے لئے۔(سورہ نساء،آیت:۴۱ | شہید۔ اللہ تعالیٰ کے لئے۔(سورہ بروج،آیت:۹ |
کریم۔ حضرت جبرئیل کے لئے۔{سورہ تکویر،آیت:۱۹ | کریم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔(سورہ انفطار،آیت:۶ |
غیب کی بات بتانے والا۔ حضور ﷺ کے لئے۔{سورہ تکویر،آیت:۲۴ | غیب کی بات بتانے والا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے۔(سورہ نمل،آیت:۶۵ |
حلیم۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے۔{سورہ توبہ،آیت:۱۱۴ | حلیم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔{سورہ مائدہ،آیت:۱۰۱ |
مردوں کو زندہ کرنے والا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے۔(سورہ آل عمران،آیت :۴۹) | مردوں کو زندہ کرنے والا۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔(سورہ بقرہ،آیت:۲۵۸ |
مولیٰ،یعنی مدد گار،دوست۔حضور ﷺ،فرشتے اور نیک مومنین کے لئے۔[سورہ تحریم،آیت:۴ | [مولی ٰ،یعنی مدد گار،دوست،آقا۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔[سورہ تحریم ،آیت:۲ |
عقیدہ : اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے۔یعنی نہ وہ جسم ہے اور نہ اس میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو جسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ ہاتھ ،پیر،آنکھ،ناک اور کان وغیرہ سے پاک ہے ۔اسی طرح کسی جگہ میں ہونے ،بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پھرنے وغیرہ سےبھی پاک ہے۔اور قرآن و احادیث میں جو بعض ایسے الفاظ آئے ہیں مثلا “ید،وجھہ، رِجل، ضحک ،استوا “وغیر ھا جن کا ظاہر جسمیت پر دلالت کر تا ہے ان کا ظاہری معنی مراد لینا گمراہی و بد مذہبی ہے۔صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ان سب کے حق ہو نے پر ایمان و یقین رکھے اور مراد کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے کہ وہی اپنی مراد بہتر جاننے والا ہے ہمارا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے قول پر ایمان ہے کہ استوا حق ہے،ید حق ہے۔اور اس کا استوا مخلوق کے استوا کی طرح اور اس کا ید مخلوق کی ید کی طرح نیز اس کا دیکھنا سننا کلام کرنا مخلوق کے دیکھنے ،سننے اور کلام کرنے کی طرح نہیں ہے۔ کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ارشاد فر مادیا ہے کہ ‘کوئی بھی چیز اس کی طرح نہیں
[سورہ شوریٰ،آیت:11]
اور ایسی آیتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ ہم اس پر ایمان و یقین رکھیں اور اس کی تاویل اورمطلب نکالنے کے پیچھے نہ پڑیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فیۡ قُلُوۡبِہِمْ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَمَا یَعْلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ ۘؔ وَالرّٰاسِخُوۡنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلْبَابِ ﴿۷﴾ رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوۡبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیۡتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿۸﴾ [سورہ آل عمران:7.8]
ترجمہ : وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے اس میں سے متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پھیلانےاور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف عقل والوں ہی کونصیب ہوتی ہے۔ (اور کامل علم والے عرض کرتے ہیں کہ:) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں ٹیڑ ھا پن پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔
نوٹ: کچھ لوگ بول چال میں اللہ تعالیٰ کے لئے”اوپر والا”اور کچھ لوگ”اللہ میاں” بو ل دیتے ہیں۔اِن دونوں لفظوں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے درست نہیں ہے۔”اوپر والا” کہنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ،نیچے،دائیں اور بائیں سے پاک ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے لئے”میاں”کا لفظ بولنا اس لئے درست نہیں ہے کہ لغت میں”میاں”کا تین معنیٰ ہوتا ہے۔(۱) شوہر۔(۲) بزرگ۔(۳)زنا کا دلالی کرنے والا۔اِن تینوں معنوں میں سے صرف ایک معنی درست ہے اور باقی دو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔اور اللہ و رسول کی شان میں کوئی بھی ایسا لفظ جو کسی بھی اعتبار سے غلط ہو اس کا استعمال کرنا درست نہیں ہے ۔اس لئے اللہ و رسول کی شان میں ایسے الفاظ کے استعمال سے ہمیں بہت دور رہنا چاہئے۔