(Zarb-e-Kaleem-099) (مرد افرنگ) Mard-e-Afrang

عورت
مرد فرنگ

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

Aurat
Mard-e-Farang
Hazar Bar Hakeemon Ne Iss Ko Suljhaya
Magar Ye Masla-e-Zan Raha Wahin Ka Wahin

Qasoor Zan Ka Nahin Hai Kuch Iss Kharabi Mein
Gawah Iss Ki Sharafat Pe Hain Mah-o-Parveen

Fasad Ka Haifarangi Maasharat Mein Zahoor
Ke Mard Sada Hai Bechara Zan Shanas Nahin

Woman
THE FRANKISH MAN

To solve this riddle thinkers have much tried, their efforts all so far it has defied.

No doubt, to woman’s faith and conduct clear, the Pleiades and moon do witness bear.

This vice in Frankish way of life we find, men fools and blind, can’t read a woman’s mind.

(Translated by Syed Akbar Ali Shah)

 

مرد فرنگ
(پہلی)
اس نظم میں اقبال نے یہ بتایا ہے، کہ یورپ میں عورت کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ کیوں ہوگیا ہے. کہتے ہیں کہ:
اگرچہ یورپ کے حکماء ایک عرصہ سے مسئلہ زن کو سلجھانے کی کاشش کر رہے ہیں. لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی. وہ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرت میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟
مغربی معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اس کی وجہ یہ ہے. کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ عورت کی حیثیت کیا ہے. لیکن ہم ان خرابیوں کا ذمہ دار عورت کو قرار نہیں دے سکتے. یعنی یہ تو سچ ہے. کہ مغرب میں سوسائٹی کا نظام بگڑ گیا ہے. لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے. کہ عورت کی فطرت خراب ہے. نہیں وہ بالطبع بہت شریف ہے.  زمین وآسمان اس کی شرافت پرواہ ہیں.
دراصل بات یہ ہے کہ یورپ کے مرد بھولے ہیں، وہ عورت کی فطرت سے واقف نہیں ہیں. اس لیے معاشرت میں فساد رونما ہوگیا. عورت فطرتاً، مرد کی دست نگر اور اپنی حفاظت کے لیے اس کی محتاج ہے. علاوہ بریں اسے فطرت نے ماں بننے اور بچوں کی پرورش کرنے اور گھر کا انتظام کرنے کے لیے پیدا کیا ہے. یعنی قدرت نے مردوں اور عورتوں کے لیے جدا گانہ دائرہ عمل مقرر کر دیا ہے. وہ اس لیے پیدا نہیں کی گئی ہے. کہ میدان جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ کرے. بلکہ اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ:
ماں بنے یعنی بچے پیدا کرے اور ان کی صحیح طریق پر تربیت کرے. گھر کا انتظام کرے اور مرد جو کچھ کما کر لائے اسے سلیقہ کے ساتھ صرف کرے اور کچھ رقم پس انداز کرے.
اپنی عصمت کی حفاظت کرے تاکہ سوسائٹی میں فساد رونما نہ ہو.
الغرض فطرت نے اس لیے جو ظائف حیات مقرر کردئے ہیں ان پر کار بنددہ کر معاشرت کو خوشگوار بنائے.
یورپ نے فطرت کے اصول اور عورت کی فطرت دونوں باتوں کو مد نظر نہیں رکھا اور عورت کو اپنی تفریح کا آلہ بنالیا یعنی وہ گھر کی ملکہ بننے کے بجائے کلب کی زنیت بن گئی. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرت میں فسادرونما ہوگیا.

Comments are closed.

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: