عورت
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہ بود و نبود
معرکہ بود و نبود: وجود اور عدم کا میدان جنگ۔ ، یعنی دنیا۔
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود!
عقدہ مشکل کي کشود: مشکل گرہ کو کھولنا۔
Aurat
Johar-e-Mardayan Hota Hai Be Minnat-e-Ghair
Ghair Ke Hath Mein Hai Johar-e-Aurat Ki Namood
Raaz Iss Ke Tap-e-Gham Ka Yehi Nukta-e-Shauq
Atisheen, Lazzat-e-Takhleeq Se Hai Iss Ka Wujood
Khule Jate Hain Issi Aag Se Asrar-e-Hayat
Garam Issi Aag Se Hai Maarka-e-Bood-o-Nabood
Mein Bhi Mazloomi-e-Niswan Se Hun Gham-Naak Bohat
Nahin Mumkin Magar Iss Uqda-e-Mushkil Ki Kushood!
WOMAN
Man’s worth is brought to light without aid from the rest, but woman’s worth depends on others at its best.
Her pain and fret for breed this joyful fact proclaims that procreation is her first and foremost aim.
The self-same fire reveals hid secrets of this life; this fire keeps aflame life and death’s deadly strife.
The oppression of fair sex has cast me down a lot: I can not think of means that can resolve this knot.
(Translated by Syed Akbar Ali Shah)
عورت
اس نظم میں اقبال نے عورت کی فطری حیثیت کو واضح کیا ہے کہ وہ فعل تخلیق میں مرد کے تعاون کی محتاج ہے. اگرچہ اس لحاظ سے عورت مرد کی دست نگر بن جاتی ہے. لیکن اس صورت حال سے کوئی مفر نہیں ہے. چنانچہ کہتے ہیں کہ
مرد اپنی ذاتی خوبیوں کا اظہار، دوسرے کی مدد کے بغیر کر سکتا ہے لیکن عورت اپنے جوہر کا اظہار مرد کے تعاون کے بغیر نہیں کر سکتی، یعنی عورت کا جوہر یہ ہے کہ وہ “ماں” بنتی ہے اور یہ کام مرد کے بغیر انجام نہیں پا سکتا.
وہ اپنے جوہر کے اظہار کے لیے فطری جذبہ رکھتی ہے لیکن چونکہ یہ جذبہ مرد کے تعاون کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا، اسی لئے وہ اس کے تعاون کی طرف طبی میلان رکھتی ہے. اور اسی لیے اس کی شخصیت میں لذت تخلیق کا عنصر نمایاں ہے.
اس کی زندگی کے اسرار، اسی لذت تخلیق کی بدولت، آشکار ہوتے ہیں. اور اسی جذبہ کی بدولت دنیا کی یہ رونق برقرار ہے اس میں شک نہیں کہ عورت کو اس جذبہ کی تکمیل کے لیے مرد کادست نگر بننا پڑتا ہے. لیکن اس عقدہ کے حل کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ عورت اس معاملہ میں اپنی احتیاج کا اعتراف کرے. کیونکہ قانون فطرت یہی ہے. “