(Rumuz-e-Bekhudi-01) (پیش کش بحضور ملّت اسلامیہ) Paishkash Ba Huzoor-e-Millat-e-Islamia

پیشکش بحضور ملت اسلامیہ

ملّت اسلامیہ کے حضور میں پیشکش۔

منکر نتوان گشت اگر دم زنم از عشق

این نشہ بمن نیست اگر با دگری ہست

(اگر میں عشق کی بات کرتا ہوں تو مجھے اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے ؛ اگر میں اس نشے سے خالی ہوں تو کسی اور میں ضرور ہو گا۔)

اے ترا حق خاتم اقوام کرد

بر تو ہر آغاز را انجام کرد

(اے وہ امت جسے حق تعالے نے خاتم اقوام بنایا ہے؛ اور جس پر اپنی ہر ابتدا کی انتہا کر دی ہے۔)

اے مثال انبیا پاکان تو

ہمگر دلھا جگر چاکان تو

(تیرے نیک لوگ گذشتہ انبیا (علیہ) کی مانند ہیں ؛ تیرے جگر چاک دلوں کو جوڑنے والے ہیں۔)

اے نظر بر حسن ترسازادہ ئی

اے ز راہ کعبہ دور افتادہ ئی

(اے امت مسلمہ ! تو نے اہل کلیسا کے حسن (علوم) پر نظر رکھی ہوئی ہے؛ اور تو راہ کعبہ سے دور جا پڑی ہے۔)

اے فلک مشت غبار کوی تو

“اے تماشا گاہ عالم روی تو”

(آسمان تیرے کوچے کی مشت غبار ہے؛ ساری دنیا تیرے چہرے پر مفتوں ہے۔)

ہمچو موج، آتش تہ پا میروی

“تو کجا بہر تماشا میروی”

(تو موج کی طرح اپنے آپ سے تیزی سے بھاگ رہی ہے؛ تو کسے دیکھنے کے لیے جا رہی ہے۔)

رمز سوز آموز از پروانہ ئے

در شرر تعمیر کن کاشانہ ئی

(پروانے سے جلنے کی رمز سیکھ؛ اور (اس کی طرح) شرر میں کاشانہ تعمیر کر۔)

طرح عشق انداز اندر جان خویش

تازہ کن با مصطفی پیمان خویش

(اپنی جان کے اندر عشق کی بنیاد رکھ؛ حضور (صلعم) سے اپنا پیام محبت از سر نو استوار کر۔)

خاطرم از صحبت ترسا گرفت

تا نقاب روی تو بالا گرفت

(جب سے تیرے حسین چہرے پر سے نقاب اٹھا ہے؛ میں اہل یورپ کی صحبت سے دل گرفتہ ہو گیا ہوں۔)

ہم نوا از جلوہ ی اغیار گفت

داستان گیسو و رخسار گفت

(میرے ہمنواؤں نے غیروں کے حسن اور ان کے گیسو و رخسار کی داستانیں سنائیں۔)

بر در ساقی جبین فرسود او

قصہ ی مغ زادگان پیمود او

(انہوں نے ساقی (مغرب) کے دروازے پر جبہ سائی کی؛ اور وہاں کے مغ زادوں کے قصّے سنائے۔)

من شہید تیغ ابروے تو ام

خاکم و آسودہ ے کوی تو ام

(مگر اے امت مسلمہ میں تیری تیغ آبرو کا شہید ہوں ؛ خاک ہوتے ہوئے میں نے تیری گلی میں سکوں پایا۔)

از ستایش گستری بالاترم

پیش ہر دیوان فرو ناید سرم

(میں قصیدہ گوئی سے بالا تر ہوں؛ ہر محل کے سامنے سر نہیں جھکتا۔)

از سخن آئینہ سازم کردہ اند

وز سکندر بے نیازم کردہ اند

(شاعری میری آئینہ سازی ہے؛ اور مجھے (آئینہ) سکندر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔)

بار احسان بر نتابد گردنم

در گلستان غنچہ گردد دامنم

(میری گردن کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی؛ میں گلستان کے اندر غنچہ کی مانند اپنے آپ کو رکھے ہوئے ہوں۔)

سخت کوشم مثل خنجر در جہان

آب خود می گیرم از سنگ گران

(میں دنیا میں خنجر کی مانند سخت کوش؛ پتھر سے اپنی آب و تاب حاصل کرتا ہوں۔)

گرچہ بحرم موج من بیتاب نیست

بر کف من کاسہ ی گرداب نیست

(اگرچہ میں سمندر ہوں مگر میری موج بے قرار نہیں؛ میری ہتھیلی پر بھنور کا کاسہ نہیں۔)

پردہ ی رنگم شمیمی نیستم

صید ھر موج نسیمی نیستم

(میں پردہ رنگ ہوں، خوشبو نہیں ہوں کہ نسیم کی ہر موج کا شکار بن جاؤں۔)

در شرار آباد ہستی اخگرم

خلعتی بخشد مرا خاکسترم

(میں زندگی کے شرر آباد میں ایک انگارہ ؛ میری خاکستر ہی میری خلعت ہے۔)

بر درت جانم نیاز آوردہ است

ہدیہ ی سوز و گداز آوردہ است

(اے ملّت اسلامیہ (مجھ جیسا خود دار بھی) تیرے دروازے پر نیاز مندانہ ہدیہء سوز و گداز لایا ہے۔)

ز آسمان آبگون یم می چکد

بر دل گرمم دمادم می چکد

(نیلے آسمان سے میرے گرم دل پر افکار موسلا دھار بارش کی مانند برس رہے ہیں۔)

من ز جو باریکتر می سازمش

تا بہ صحن گلشنت اندازمش

(میں انہیں ندی سے بھی زیادہ باریک بنا کے تیرے صحن گلشن میں پیش کر رہا ہوں۔)

زانکہ تو محبوب یار ماستی

ہمچو دل اندر کنار ماستی

(چونکہ تو ہمارے دوست ( صلعم) کی محبوب ہے ؛ اس لیے تو ہمارے پہلو میں دل کی مانند ہے۔)

عشق تا طرح فغان در سینہ ریخت

آتش او از دلم آئینہ ریخت

(جب سے عشق نے سینے میں آہ و فغاں کی بنیاد رکھی ہے؛ اس کی آگ نے میرے دل کو آئینہ بنا دیا ہے۔)

مثل گل از ہم شکافم سینہ را

پیش تو آویزم این آئینہ را

(میں اپنے سینے کو پھول کی طرح چیر کر ؛ اپنے دل کا آئینہ تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں۔)

تا نگاہی افکنی بر روی خویش

می شوی زنجیری گیسوی خویش

(تاکہ تو اپنے چہرے پر نگاہ ڈال سکے اور اپنی زلف کی اسیر ہو جائے۔)

باز خوانم قصہ ی پارینہ ات

تازہ سازم داغہای سینہ ات

(میں تیری پرانی داستاں پھر سے سناتا ہوں تا کہ تیرے سینے کے داغ تازہ ہو جائیں۔)

از پی قوم ز خود نامحرمی

خواستم از حق حیات محکمی

(میں نے اس قوم کے لیے جو اپنے آپ کو بھول چکی تھی؛ حق تعالے سے پائیدار زندگی کی درخواست کی۔)

در سکوت نیم شب نالان بدم

عالم اندر خواب و من گریان بدم

(آدھی رات کے سکوت میں نالہ و فریاد کرتا تھا؛ دنیا خواب میں ہوتی اور میں گریاں ہوتا۔)

جانم از صبر و سکون محروم بود

ورد من یاحی و یاقیوم بود

(میری جان صبر و سکون سے محروم تھی اور میرے لبوں پر یا حّی و یا قیوم کا ورد تھا۔)

آرزوئی داشتم خون کردمش

تا ز راہ دیدہ بیرون کردمش

(ملّت کی سربلندی کی جو آرزو میں رکھتا تھا اس نے میرا دل خون کر دیا؛ اور وہ (اشکوں کی صورت میں ) میری آنکھوں سے بہہ نکلا۔)

سوختن چون لالہ پیہم تا کجا

از سحر دریوز شبنم تا کجا؟

(میں لالہ کی مانند کب تک مسلسل جلتا رہوں اور کب تک صبح سے شبنم کی بھیک مانگتا رہوں۔)

اشک خود بر خویش می ریزم چو شمع

با شب یلدا در آویزم چو شمع

(میں شمع کی مانند اپنے آنسو اپنے آپ پر ہی گرا رہا ہوں؛ (اور اس طرح) اکیلا ہی تاریکی سے نبرد آزما ہوں۔)

جلوہ را افزودم و خود کاستم

دیگران را محفلی آراستم

(میں نے شمع کی مانند) روشنی میں اضافہ کیا ؛ خود گھلتا رہا اور دوسروں کے لیے محفل آراستہ کی۔)

یک نفس فرصت ز سوز سینہ نیست

ہفتہ ام شرمندہ ی آدینہ نیست

(مجھے سینے کی تپش سے ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں؛ میرے ہفتے میں روز جمعہ (چھٹی ‏ کا دن ) نہیں ہے۔)

جانم اندر پیکر فرسودہ ئی

جلوہ ی آہی است گرد آلودہ ئی

(میرے کہنہ بدن کے اندر جان گویا ایک گرد آلود آہ کا جلوہ ہے۔)

چون مرا صبح ازل حق آفرید

نالہ در ابریشم عودم تپید

(حق تعالے نے جب صبح ازل مجھے تخلیق فرمایا تو میرے عود کے ریشمی تاروں میں نالے تڑپنے لگے۔)

نالہ ئی افشا گر اسرار عشق

خونبہای حسرت گفتار عشق

(ایسے نالے جو عشق کے راز کھولنے والے تھے اور جنہیں عشق کی حسرت گفتار کا خون بہا کہنا چاہئے۔(عشق چاہتا ہے کہ اپنے راز خود افشا کرے مگر کر نہیں سکتا؛ اس کی اس خواہش کی موت کا خون بہا اقبال (رحمتہ) کے نالے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے عشق کے راز افشا کر دیئے۔)

فطرت آتش دہد خاشاک را

شوخی پروانہ بخشد خاک را

(میرا نالہ خس و خاشاک کو آگ کی فطرت عطا کرتا ہے اور خاک کو شوخیء پروانہ دیتا ہے۔)

عشق را داغی مثال لالہ بس

در گریبانش گل یک نالہ بس

(عشق کے لیے گل لالہ کی طرح کا داغ ہے؛ میرے ایک ہی نالے کے پھول سے اس کا دامن بھر جاتا ہے۔)

من ہمین یک گل بدستارت زنم

محشری بر خواب سرشارت زنم

(اے ملّت اسلامیہ ! میں ہی ایک پھول تیری دستار میں آویزاں کرتا ہوں اور اس کے ذریعے تیری گہری خواب میں محشر بپا کرتا ہوں۔)

تا ز خاکت لالہ زار آید پدید

از دمت باد بھار آید پدید

(تاکہ تیری خاک سے لالہ زار کھل اٹھے؛ اور تیرا دم باد بہار بن جائے۔)

از- علامہ محمد اقبال ؒ

Comments are closed.

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: