(Rumuz-e-Bekhudi-11) (حکایت سلطان مراد و معمار) Hikayat-e-Sultan Murad Wa Ma’amar Dar Ma’ani Masawat-e-Islamia

علامہ اقبال نے بہت ہی خوبصورت انداز میں قرآن کے عدل و انصاف کے قانون کو ایک تاریخی حکایت کی روشنی میں واضح کیا ہے، کہ کس طرح قرآن کے عدل و انصاف کے قانون پر عمل کرکے کے امت محمدیہ ﷺ میں مساوات قائم کی جاسکتی ہے۔

حکایت سلطان مراد و معمار

(حکایت سلطان مراد و معمار در معنی مساوات اسلامیہ کے بارے میں)

بود معماری ز اقلیم خجند

در فن تعمیر نام او بلند

(ترکستان میں دریائے سیحوں کے کنارے واقع شہر، خجند میں ایک معمار تھا جس کا نام فن تعمیر میں بہت بلند تھا۔)

ساخت آن صنعت گر فرہاد زاد

مسجدی از حکم سلطان مراد

(اس فرہاد زاد صنعت گر نے سلطان مراد کے حکم سے ایک مسجد تعمیر کی۔)

خوش نیامد شاہ را تعمیر او

خشمگین گردید از تقصیر او

(بادشاہ کو اس کی تعمیر پسند نہ آئی اور وہ (اس بارہ میں) اس کی کوتاہی دیکھ کر غصّے میں آ گیا۔)

.

آتش سوزندہ از چشمش چکید

دست آن بیچارہ از خنجر برید

(بادشاہ کی آنکھوں سے غصّہ میں شرارے نکلنے لگے؛ اس نے اس بیچارے معمار کا ہاتھ خنجر سے کاٹ دیا۔)

جوے خون از ساعد معمار رفت

پیش قاضی ناتوان و زار رفت

(معمار کی کلائی سے خون کی ندی بہہ نکلی اور وہ کمزور و ناتواں شخص ق‍اضی کے سامنے جا کر پیش ہو گیا۔)

آن ہنرمندی کہ دستش سنگ سفت

داستان جور سلطان باز گفت

(وہ ہنرمند جس کا ہاتھ پتھر پروتا تھا اس نے قاضی کے سامنے سلطان کے ظلم کی داستاں بیان کی۔)

گفت اے پیغام حق گفتار تو

حفظ آئین محمد کار تو

(اور کہا آپ کی زبان حق تعالے کے پیغام کی ترجمان ہے؛ اور شریعت محمدیہ کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔)

سفتہ گوش سطوت شاہان نیم

قطع کن از روی قرآن دعویم

((میں مرد آزاد ہوں ) بادشاہوں کی سطوت کا غلام نہیں ہوں؛ قرآن پاک کی رو سے میرے دعوے کا فیصلہ کیجیئے۔)

قاضی عادل بدندان خستہ لب

کرد شہ را در حضور خود طلب

(عادل قاضی (غصّہ سے) اپنے ہونٹ کاٹنے لگا؛ اس نے فورا بادشاہ کو اپنے حضور طلب کیا۔)

رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید

پیش قاضی چون خطاکاران رسید

(ہیبت قرآن پاک سے شاہ کا رنگ اڑ گیا اور مجرموں کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوا۔)

از خجالت دیدہ بر پا دوختہ

عارض او لالہ ہا اندوختہ

(شرم کے مارے اس کی نگاہیں اس کے پاؤں پر جمی تھیں اور اس کے رخسار سرخ ہو رہے تھے۔)

یک طرف فریادی دعوی گری

یک طرف شاہنشہ گردون فری

((قاضی کی خدمت میں) ایک طرف فریادی اپنا دعوے لیے کھڑا تھا اور دوسری طرف بلند مرتبت بادشاہ۔)

گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام

اعتراف از جرم خود آوردہ ام

(بادشاہ نے کہا میں اپنے کیئے پر شرمندہ ہوں اور مجھے اپنے جرم کا اعتراف ہے۔)

گفت قاضی فی القصاص آمد حیوة

زندگی گیرد باین قانون ثبات

(قاضی نے کہا زندگی کا دار و مدار قانون و قصاص پر ہے؛ اسی قانون سے زندگی استحکام پاتی ہے۔)

عبد مسلم کمتر از احرار نیست

خون شہ رنگین تر از معمار نیست

(مسلمان غلام آزاد سے کمتر نہیں؛ نہ بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ سرخ ہے۔)

چون مراد این آیہ ی محکم شنید

دست خویش از آستین بیرون کشید

(جب سلطان مراد نے یہ آیہء محکم سنی تو اس نے اپنی آستین سے ہاتھ نکال کر آگے بڑھا دیا۔)

مدعی را تاب خاموشی نماند

آیہ ی “بالعدل و الاحسان” خواند

(یہ دیکھ کر مدعی خاموش نہ رہ سکا؛ اس نے عدل و احسان کی آیت پڑھی۔)

گفت از بہر خدا بخشیدمش

از برای مصطفی بخشیدمش

(اور کہا میں نے اللہ تعالے اور اللہ کے رسول (صلعم) کی خاطر بادشاہ کو معاف کیا۔)

یافت موری بر سلیمانی ظفر

سطوت آئین پیغمبر نگر

(جناب رسول پاک (صلعم) کے آئین کی شان دیکھ؛ اس کی بدولت چیونٹی نے سلیمان (علیہ) پر فتح پائی۔)

پیش قرآن بندہ و مولا یکی است

بوریا و مسند دیبا یکی است

(قرآن پاک کی نظر میں آقا و غلام برابر ہیں؛ کوئی بوریا نشین ہو یا تخت کا وارث ان میں کوئی فرق نہیں۔)

از – علامہ محمد اقبال ؒ

حوالہ : رموزِ بیخودی، ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ

Comments are closed.

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: