حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر رحمةاﷲ علیہ
(شہنشاہ عالمگیر (رحمتہ) اور شیر کی کہانی۔)
شاہ عالمگیر گردون آستان
اعتبار دودمان گورگان
(آسمان مرتبت شہنشاہ عالمگیر جو خاندان تیمور کے لیے باعث فخر ہے۔)
پایہ ی اسلامیان برتر ازو
احترام شرع پیغمبر ازو
اس کی وجہ سے مسلمانوں کی توقیر بڑھی ؛ اس کے دور میں حضور (صلعم) کی شریعت کا احترام قائم ہوا۔
در میان کارزار کفر و دین
ترکش ما را خدنگ آخرین
کفر و دین کی جنگ میں وہ ہمارے ترکش کا آخری تیر تھا۔
تخم الحادی کہ اکبر پرورید
باز اندر فطرت دارا دمید
اکبر نے الحاد کے جس بیج کو بویا اور اس کی نشو و نما کی؛ اس نے دوبارہ دارا شکوہ کی فطرت سے سر نکالا۔
شمع دل در سینہ ہا روشن نبود
ملت ما از فساد ایمن نبود
سینوں کے اندر دلوں کی شمعیں بجھ چکی تھیں؛ اور ہماری ملّت اسلامیہ کو فساد کا خطرہ درپیش تھا۔
حق گزید از ہند عالمگیر را
آن فقیر صاحب شمشیر را
الّلّہ تعالے نے ہندوستان میں عالمگیر کو منتخب فرما لیا ؛ وہ عالمگیر جو فقیر صاحب شمشیر تھا۔
از پے احیاے دین مأمور کرد
بہر تجدید یقین مأمور کرد
اور اسے احیا ئے دین و تجدید ایمان کے لیے معمور فرمایا۔
برق تیغش خرمن الحاد سوخت
شمع دین در محفل ما بر فروخت
اس کی تلوار الحاد کے خرمن پر بجلی بن کر گری اور اسے جلا دیا؛ اور اس نے ہمارے درمیان دین کی شمع روشن کر دی۔
کور ذوقان داستانہا ساختند
وسعت ادراک او نشناختند
بے سمجھ لوگوں نے اس کے بارے میں کئی کہانیاں گھڑ لیں ؛ وہ اس کے ذہنی وسعت کے افق کا اندازہ نہ کر سکے۔
شعلہ ی توحید را پروانہ بود
چون براہیم اندرین بتخانہ بود
وہ شمع توحید کا پروانہ تھا؛ وہ بتخانہ ہند کے ابراہیم ثابت ہوئے۔
در صف شاہنشان یکتاستی
فقر او از تربتش پیداستی
وہ شہنشاہوں کی صف میں یکتا ہیں ؛ ان کا فقر ان کی قبر سے ظاہر ہے۔
روزے آن زیبندہ ی تاج و سریر
آن سپہدار و شہنشاہ و فقیر
وہ زینت تخت و تاج؛ وہ جو بیک وقت سپہ سالار، شہنشاہ اور فقیر تھا۔
صبحگاہان شد بہ سیر بیشہ ئی
با پرستاری وفا اندیشہ ئی
ایک روز صبح کے وقت ایک عقیدتمند اور وفادار ساتھی کے ساتھ جنگل کی سیر کو نکلا۔
سر خوش از کیفیت باد سحر
طایران تسبیح خوان بر ہر شجر
باد صبا کی کیفیت سے سرخوش ہو کر پرندے ہر درخت پر حمد کے گیت گا رہے تھے۔
شاہ رمز آگاہ شد محو نماز
خیمہ بر زد در حقیقت از مجاز
وہ حقیقت شناس بادشاہ بھی نماز میں محو ہو گیا؛ اس نے مجاز سے خیمہ اٹھایا اور حقیقت میں نسب کر لیا۔
شیر ببر آمد پدید از طرف دشت
از خروش او فلک لرزندہ گشت
جنگل کی طرف سے ایک ببر شیر نکلا ؛ اس کی دہاڑ سے آسمان پر لرزہ طاری ہو گیا۔
بوے انسان دادش از انسان خبر
پنجہ عالمگیر را زد بر کمر
انسان کی بو نے اسے انسان کی موجودگی کی خبر دے دی تھی (قریب پہنچ کر ) اس نے عالمگیر کی کمر پر پنجہ مارا۔
دست شہ نادیدہ خنجر بر کشید
شرزہ شیری را شکم از ھم درید
بادشاہ نے اسے دیکھے بغیر خنجر نکالا اور غضبناک شیر کا شکم چاک کر دیا۔
دل بخود راہی نداد اندیشہ را
شیر قالین کرد شیر بیشہ را
وہ ذرا نہ گھبرایا (اور اس نے ایک ہی وار سے ) جنگل کے شیر کو شیر قالین بنا دیا۔
باز سوے حق رمید آن ناصبور
بود معراجش نماز با حضور
اس کے بعد وہ عبادت کا شیدائی پھر حق تعالے کی طرف متوجہ ہو گیا ؛ اسے نماز میں معراج کی سی کیفیت حاصل تھی۔
این چنین دل خود نما و خود شکن
دارد اندر سینہ ی مومن وطن
مومن کے سینے میں ایسا ہی خودنما و خود شکن دل جاگزیں ہوتا ہے۔
بندہ ی حق پیش مولا لاستی
پیش باطل از نعم بر جاستی
بندہ حق اللہ تعالے کے سامنے لا (خود شکن) ہے اور باطل کے سامنے نعم (خود نما) ہے۔
تو ہم اے نادان دلی آور بدست
شاہدی را محملی آور بدست
اے نادان تو بھی اپنے سینے میں ایسا دل پیدا کر جو محبوب (حق تعالے ) کا محمل ہو۔
خویش را در باز و خود را بازگیر
دام گستر از نیاز و ناز گیر
اپنے آپ کو قربان کر کے اپنے آپ کو پا لے ؛ نیاز کا دام بچھا کر ناز کو شکار کر لے۔
عشق را آتش زن اندیشہ کن
روبہ حق باش و شیری پیشہ کن
عشق سے وسوسوں کو جلا دے؛ اللہ تعالے کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور شیر بن جا۔
خوف حق عنوان ایمان است و بس
خوف غیر از شرک پنہان است و بس
اللہ تعالے کا خوف ہی ایمان کا عنوان ہے اور شرک خوف غیر ہی سے عبارت ہے۔