(Zarb-e-Kaleem-072) (زمانہ حاضر کا انسان) Zamana-e-Hazir Ka Insan

زمانہ حاضر کا انسان

عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار
عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

میگزدش صورت مار: سانپ کی طرح کاٹنے والی۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

اس نظم میں اقبال نے موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ انسان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ عقلی اعتبار سے تو اس نے بہت ترقی کر لی ہے، لیکن روحانی اعتبار سے کوئی ترقی نہیں کی. کہتے ہیں کہ 

موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ انسان میں عشق کا جذبہ بالکل ناپید ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی عقل اس کے حق میں موجب عذاب بن گئی ہے. پس اسے لازم ہے کہ وہ اپنی عقل کو دل کے تابع بنا کر اسے اپنے حق میں مفید بنائے. اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں. 

اقبال کا فلسفہ یہ ہے کہ صرف وہ عقل انسان کے لئے مفید ہو سکتی ہے. جو اس کے دل کے تابع ہو۔ چنانچہ پیام مشرق میں لکھتے ہیں.

نقشے کے بستہ ہمہ اوہام باطل است

‏ عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است

یعنی محض عقل کی بدولت تو نے جو کچھ سمجھا ہے. وہ سب غلط ہے. اگر تو حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو اپنی عقل کو عشق کے تابع کرو. 

‏واضح ہو کہ مشہور جرمن فلسفی کانٹ بھی یہی چاہتا ہے کہ محض عقل، حقائق ایشیا کا ادراک نہیں کر سکتی، وہ صرف مظاہرکو جان سکتی ہے. چنانچہ موجودہ زمانہ کا انسان ستاروں کی گزر گاہیں تو معلوم کر رہا ہے لیکن خود اپنے افکار کی حقیقت سے واقف نہیں ہے، یعنی کائنات کا علم تو حاصل کر رہا ہے، لیکن اپنی حقیقت سے بے خبر ہے. اور فلسفیانہ مسائل میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ آج تک یہ نہ معلوم کرسکا کہ وہ طریق زندگی کونسا ہے، جس پر چلنے سے اطمینان قلب حاصل ہو سکتا ہے.

اس نے سورج کی شُعاعوں کو اپنے قابو میں کر لیا ہے لیکن اس کی زندگی بدستور سابق، تاریک ہے، یعنی سائنس میں بہت کچھ ترقی کر لی ہے. لیکن اپنے نفس کی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل ہے.

 

English Translation:

زمانہ حاضر کا انسان

عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار
عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا
میگزدش صورت مار: سانپ کی طرح کاٹنے والی۔
MAN OF PRESENT AGE
In heart of man of present age, no Love of God is found at all; wit stings him like a furious snake, his glance cannot his mind enthrall.
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

Though man aspires to find the track of stars that roam in sky and tread Alas! Man has completely failed to map the world of mind or head.
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

In intricacies of his thought he is embroiled; is clear and plain, so he is not as yet aware of what is loss and what is gain.
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

Man has harnessed rays of the Sun, much gain from them he has drawn, but he can not transform the dark and dismal night of life to dawn.
[Translated by Syed Akbar Ali Shah]

Comments are closed.

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: