سلطان ٹیپو کی وصیت
تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
جوئے آب: ندی۔
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
اس دلپزیز نظم میں علامہ نے سلطان شہید کی سیرت بیان کی ہے، اور ان اصولوں کی وضاحت کی ہے، جن پر یہ “مرد مومن” ساری عمر کا بند رہا. واضح ہو کہ اقبال کو، سلطان شہید سے بہت عقیدت تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے شاہکار (اور اسی لئے غیر معروف) جاوید نامہ میں چند سطریں نہیں، بلکہ آٹھ صفحے اس مرد مجاہد کے ذکر جمیل کی نذر کئے ہیں.
مسلمان اس نامور فرزند اسلام کی سیرت سے اس لیے بے خبر ہیں، کہ وہ انگریزوں کا جانی دشمن تھا. اور اس کی شہادت کے بعد یہ دشمن اسلام گروہ، ہندوستان پر قابض ہوگیا. اس لیے اسے ہندوستان کی تاریخ میں اس مرد مومن کا تذکرہ ایسے نفرت انگیز پیرایہ میں کیا، کہ پڑھنے والوں کو اس سچے مسلمان سے عقیدت درکنار نفرت ہوگئی. حقیقت حال یہ ہے کہ اس مرد حر کا وجود کفر کے سیلاب کے مقابلہ میں ایک بندہ تھا، افسوس کہ…….. میں یہ بند ٹوٹ گیا، اور کفار فرنگ کاسیلاب مالک پر محیط ہو گیا.
میں اپنے دعوے کے اثبات میں حسب ذیل حقائق پیش کرتا ہوں.
شہادت سلطان…….
پورے دکن پر اقتدار……..
کرنا ٹک پر قبضہ…….
روہیلکھنڈ اور مشرقی یوپی پر قبضہ…..
دلی پر قبضہ……
ہلکر کی شکست اور وسط ہند پر اقتدار……
کاٹھیاواڑ اور گجرات پر اقتدار…….
راجپوتانہ پر اقتدار……..
مرہٹوں کا خاتمہ……
یعنی بیس سال کی قلیل مدت میں پنجاب کے علاوہ سارا ہندوستان یونین جیک کے سایہ بوم پایا کے نیچے آگیا.
سلطان کا اصلی نام فتح علی خان تھا……. میں پیدا ہوا. شجاعت اور مردانگی دلیری، اور میں جانبازی، یہ خوبیاں اس کی سرشت میں داخل تھیں. چنانچہ باپ نے…… میں اپنی فوج میں ایک رجمنٹ کا افسر بنا دیا. اور اس بطل جلیل نے….. میں جبکہ اس کی عمر صرف سولہ سال کی تھی، مرہٹوں کے مقابلہ میں پہلی کامیابی حاصل کی، ……. میں…. مئی کو میر صادق اور دوسرے غداران ممالک کی بدولت، میدان جنگ میں شہادت حاصل کی. گویا ہندوستان میں مسلمانوں کی سطوت کا خاتمہ ہوگیا.
اسی دن رات کے نو بجے انگریزوں نے سلطان شہید کی نعش بہت تلاش کے بعد کشتوں کے انبار میں سے نکالی تو دیکھا کہ ششیر آبدار اسی طرح اس مرد مجاہد کے ہاتھ میں ہے. چونکہ اس کا قبضہ خون آلود تھا، اس لیے بصد مشکل، معشوق کو عاشق سے جدا کیا. اور اس میں کوئی شک نہیں کے کارکنان قضاء قدر نے اس رات سلطان ٹیپو کے ہاتھ سے تلوار نہیں لی، بلکہ مشرق میں مسلمانوں کے ہاتھ سے تلوار لے لی. اور یہ میرے ہی جذبات نہیں ہیں، اس زمانہ کے مسلمانوں نے بھی سلطان کی شہادت کو مسلمانوں کی حکومت کے خاتمہ سے تعبیر کیا تھا چنانچہ ایک شاعر سلطان کی تاریخ شہادت جس مصرع سے نکالی وہ میرے دعوٰی پر شاہد ہے.
خروگفت تاریخ “شمشیر گم شد”
“شمشیر گم شد” کے اعداد سے تاریخ شہادت نکلتی ہے. اورتاریخ مشرق گواہ ہے. کہ مسلمانوں کی تلوار واقعی گم ہوگئی. اور اس سے بھی زیادہ افسوس یہ ہے کہ وہ گم شدہ تلوار ابھی تک نہیں ملی. غور سے دیکھا جائے تو اقبال کا پیغام اس کے علاوہ اور کیا ہے مسلمان اس شمشیر جگردار کو پھر کہیں سے ڈھونڈھ نکالیں.
اے مسلمان! تو اللہ کا عاشق ہے، اور تیرا مقصد حیات اس تک پہنچتا ہے. اس لیے ” منزل” قبول نہیں کرسکتا ، یعنی دنیا سے دل نہیں لگا سکتا، اور اس دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت یالذت تجھ کو راہ حق سے باز نہیں رکھ سکتی.
تو ہر دم ترقی کی کوشش کر، اور باطل کا مقابلہ کر. اگر دنیا تجھے عافیت اور سکون کی طرف بلائے. تو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھ. مومن عیش کی زندگی کے لیے نہیں پیدا ہوا.
تو دنیا کی فانی دلچسپیوں میں منہمک ہو کر اپنے مقصد حیات سے غافل مت ہو. تو محفل گذار ہے، یعنی وعشرت کا دشمن ہے، اس لئے ان چیزوں کی طرف توجہ مت کر، جو تجھے میدان جہاں سے باز رکھ سکتی ہیں. مثلا دولت، عورت، اور دنیاوی شوکت وغیرہ.
اسلامی تعلیمات نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اپنے دل کو عقل کے تابع نہیں کرنا چاہیے. کیونکہ عقل تو یہی کہتی ہے کہ میدان جنگ میں جان کا خطرہ ہے. حالانکہ مسلمان کا فرض منصبی تو جہاد فی سبیل اللہ ہے. اور جہاد نام ہی اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا ہے.
باطل کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے ساتھ، طاقت ورانسان یا قوم کی اطاعت مت کرو. اور حق کی تلقین یہ ہے کہ خدا کے علاوہ اور کسی کی ہدایت مت کرو، چونکہ تو حق ساتھ باطل کو شامل مت کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت مت کر.
نوٹ:۔
سلطان شہید کی زندگی ان اشعار کی جیتی جاگتی تصویر تھی. اس نے انگریزوں کی غلامی پر موت کو ترجیح دی، کیونکہ مسلمان اللہ کے علاوہ اور کسی کا غلام نہیں ہو سکتا. کاش یہ نکتہ نظام علی خاں، غلام حیدر آباد اور محمد علی، غلام کرنا ٹکی کی سمجھ میں بھی آ جاتا تو ہندوستان کی تاریخ آج بالکل مختلف ہوتی، واحسرتا!
English Translation:
سلطان ٹیپو کی وصیت
تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
THE TESTAMENT OF TIPU SULTAN
If you traverse the road of love, don’t yearn to seek repose or rest; if Laila be your companion close that litter shun with great contempt.
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
جوئے آب: ندی۔
O steamlet, onward flow and get transformed to torrent strong and deep, if bank is e’er on you bestowed, abstain, flow on with mighty sweep.
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول
Don’t lose your bearings in this world, because with idols it is full: The assemblage here can cast a spell, disdain, or strings of heart shall pull.
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
Gabriel on Creation’s Early Morn, a piece of useful counsel gave: He bade me not accept a heart enchained by mind of man like slave.
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
Untruth conceals in various masks, but Truth and God are both unique. There can’t be pool ‘twixt good and bad, this fact is known from times antique.
[Translated by Syed Akbar Ali Shah]