غزل
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ
فراغ: فرصت۔
فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب ‘مازاغ’
ترقی۔ فروغ
خيرہ کرنا : آنکھوں کو چندھیانا۔
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
اياغ: پیالہ۔
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
کور ذوق: اندھا ذوق، ذوق کے بغیر۔
اس نظم میں اقبال نے بعض حقائق ومعارف دلکش انداز میں بیان کیے ہیں کہتے ہیں کہ
وہی شخص اپنی زندگی کے مقصد سے واقف ہوسکتا ہے جس کا دل اتباع شریعت سے منور ہو چکا ہو.
بندہ مومن، اس دنیا میں ہر وقت الہی کے حصول کی خاطر جدوجہد کرتا رہتا ہے. اس لیے اسے جیتے جی کبھی فرصت نصیب نہیں ہوسکتی، ہاں غلاموں کو چونکہ جہاد فی سبیل اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے وہ ساری زندگی فرصت کا لطف اٹھاتے رہتے ہیں. چنانچہ ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالنے سے اس شعر کی صداقت آشکار ہو سکتی ہے. وہ تاش کھیلتے ہیں، گھوڑ دوڑ میں جاتے ہیں، کلب میں جاتے ہیں. سینما دیکھتے ہیں، تفریخ کرتے ہیں. لیکن پھر بھی ان کا وقت کاٹے نہیں کٹتا. مجبوراً وہ داستان گو نوکر رکھتے ہیں، تاکہ ان کی فرصت کے اوقات کسی طرح بسر ہو سکیں.
اے مسلمان! تو اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے، مغربی قوموں کے مادی عروج کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھ رہا ہے. اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، تیری نظر کی نگہبانی فرمائیں، یعنی تجھے گمراہ ہونے سے محفوظ رکھیں.
“صاحب مازاغ” میں قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ نے آپ کی نگاہ کی بایں الفاظ توصیف فرمائی ہے……….. نہ تو آپ صل اللہ علیہ وسلم کی نگاہ بہکی نہ حد سے بڑی. “
اے مسلمان! تو کفار کی عیش وطرب کی محفلوں سے مرعوب نہ ہوجانا. اس قسم کی محفلوں کو کبھی ثبات ودوام نصیب نہیں ہوا، اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے، یہ بلوریں جام جن کی خوبصورتی ستاروں کو شرماتی ہے، سب فریب نظر ہے، کوئی دن جاتا ہے کہ یہ محفلیں درہم برہم ہو جائیگی. مجھے تو یہ افسوس ہے کہ تو کتابوں میں اس قدر مشغول رہتا ہے کبھی کائنات خلقت پر غور ہی نہیں کرتا، فطرت کے مظاہر زبان حال سے صانع فطرت کے وجود پر گواہی دے رہے ہیں، لیکن تو اس قدر کور ذوق ہو گیا ہے کہ کبھی ان حقائق کی طرف ملتفت ہی نہیں نہیں ہوتا.
اکبر الہ آبادی نے بھی اس مضمون کو اپنے مخصوص انداز میں نظم کیا ہے صرف ایک شعر اس جگہ لکھتا ہے:
صاف آئینگی نظرصانع عالم کی جھلک
سامنے کچھ نہ رکھ آئینہ فطرت کے سوا
English Translation:
غزل
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
That man alone in lire shall find to aim and end a certain sign: Whose eyes in pitch dark night can see, and like the eyes of panther shine.
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ
فراغ: فرصت۔
The slaves can get repose and rest in world confined by Time and Space: But men of high and noble birth haven’t leisure in worldly race.
فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب ‘مازاغ’
ترقی۔ فروغ
خيرہ کرنا : آنکھوں کو چندھیانا۔
The progress great that West has made, has bedazzled your eyes a deal. May Prophet (S.A.W.) guard your precious sight; to vouch him God did Najm reveal!
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
اياغ: پیالہ۔
These revels do not last for long, like guests they stay for a breath or so: The bowls of wine that glint like stars, are soon deprived of gloss and glow.
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
کور ذوق: اندھا ذوق، ذوق کے بغیر۔
The books have marred your taste and zest to such a great and vast extent that breeze of morn has also failed to give you clue of rose and scent.
[Translated by Akbar Ali Shah]