غزل
دریا میں موتی، اے موج بے باک
ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک
خاروخس و خاک: کانٹے، گھاس اور مٹی۔
میرے شرر میں بجلی کے جوہر
لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک
تیرا زمانہ، تاثیر تیری
ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک
کامل وہی ہے رندی کے فن میں
مستی ہے جس کی بے منت تاک
تاک: انگور کی بیل۔
رکھتا ہے اب تک میخانہ شرق
وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک
ادراک: عقل، سوجھ بوجھ۔
اہل نظر ہیں یورپ سے نومید
ان امتوں کے باطن نہیں پاک
اس غزل میں اقبال نے بعض حقائق معارف بیان کیے ہیں. کہتے ہیں کہ
اے مرد مسلماں! اگر موتیوں کی آرزو ہے تو ساحل کی زندگی سے کیا قطع تعلق کرکے تجھے مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا. اور اگر تو عافیت کی زندگی بسر کرنے کا آرزو مند ہے تو پھر موتیوں کا خیال چھوڑدے ساحل کے باشندوں کو تو یعنی بلامشقت صرف خسں وخاشاک حاصل ہو سکتا ہے.
میرے کلام میں، یہ تاثیر ہے کہ تیری زندگی میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے. لیکن افسوس کے تیری خودی مردہ ہوچکی ہے اس لیے جس طرح گلے پتے جل نہیں سکتے، اسی طرح، تیرے اندر میرے کلام سے کوئی حرکت یا زندگی پیدا نہیں ہوسکتی.
تیرا زمانہ، یا تیری زندگی، بس وہی ہے ہوگی جیسی تاثیر تو اس میں پیدا کردے. اگر تو جدوجہد کرے گا یقیناً کامیاب ہوگا، لیکن اگر تو عمل سے کنارہ کش ہوکر، کسی حجرہ میں بیٹھ جائے گا تو یقیناً تھوڑے دنوں کے بعد دوسروں کا دست نگر بن جائے گا. الغرض تیری زندگی پر افلاک یا ستارے حکمراں نہیں ہیں بلکہ تو خود اپنی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار ہے.
عام طور سے یہ تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ جنوں عورت کا عشق انسان کو گریبان چاک کرنے پر راغب کرتا ہے لیکن اقبال کہتے ہیں کہ ایک جنوں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی ہے جو گریبان درکنار تقدیر کے چاک کو بھی سی سکتا ہے. یعنی بگڑی ہوئی تقدیر کو بنا سکتا ہے.
نوٹ: اس شعر کا لطف چونکہ تشریح سے ظاہر نہیں ہو سکتا اس لئے میں نے قصدا اس کی وضاحت سے اجتناب کیا ہے.
عام طور سے لوگ شراب پیکر مست ہوتے ہیں لیکن یہ رندی کا کمال نہیں ہے.، اقبال کی نظر میں کمال یہ ہے کہ آدمی بے پئے مست ہو جائے بلکہ مست رہے اور یہ کمال، مرشد کی صحبت حاصل ہوسکتا ہے شراب کا نشہ تھوڑی دیر بعد اتر جاتا ہے لیکن محبت الہی کا نشہ انگوری شراب کا محتاج نہیں ہے اور جب ایک دفعہ آدمی اس شراب سے مست ہو جاتا ہے تو پھر جیتے جی یہ نشہ نہیں اترتا. مشرق کے میخانوی میں اب تک وہ شراب موجود ہے جس سے عقل روشن ہو سکتی ہے یعنی اسلام کی تعلیمات اگر کسی مرشد کامل سے حاصل کی جائیں تو انسان حقیقی معنوں میں عالم بن سکتا ہے. مغربی علوم سے عقل انسان تاریک ہو جاتی ہے یعنی انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیگانہ ہو جاتا ہے لیکن قرآن مجید انسانی عقل کو نور ایمان سے منور کر سکتا ہے.
اہل نظر یعنی اللہ والے، یورپ کے مستقبل سے ناامید ہوچکے ہیں. یعنی ان کی رائے میں اس خطہ کی بربادی یقینی ہے. کیونکہ یہ خطہ اب ان اقوام سے معمور ہے جن کے قلوب، اللہ کی محبت سے بالکل خالی ہوگئے ہیں بلکہ یہ قومیں مادہ پرستی میں مبتلا ہو کر اللہ سے اپنا تعلق یکسر منقطع کرچکی ہیں.
نوٹ: اقبال نے یہ شعر…… میں لکھا تھا. کہ اس کی جزوی صداقت تو دوسری جنگ عظیم میں واضح ہو چکی ہے اب مکمل تباہی تیسری جنگ میں ہوجائے گی جو عنقریب شروع ہونے والی ہے. بقول شخصیکہ.
پیمانہ بھر چکا ہے چھلکنے کی دیر ہے.