وجود
اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود
کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود
مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند
بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود
درسگاہوں اور مے خانوں میں محض فنا کا سبق دیا جاتا ہے؛ تجھے چاہیے کہ بقا کی تعلیم حاصل کرے تاکہ تو دنیا میں بھی زندگی کا بلند مقام حاصل کر سکے اور مرنے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔
اس نظم اقبال نے ہمیں وجود انسانی نے کے مفاسم سے آگاہ کیا ہے یہ اگر انسان اپنی خودی کو خچتہ کرے تو اس کا وجود غیر فانی ہو سکتا ہے. یہ انہوں نے وجود کو خودی کے معنوں میں استعمال کیا کہتے ہیں کہ
اے مخاطب! تیری دنیاوی زندگی عارضی اور فانی ہے اس لیے شاید تجھے یہ خیال ہو کہ میرا وجود عارضی اور فانی ہے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے وجود کے مختلف مقامات ہیں. چونٹی، مکڑی مچھر بلکہ اونٹ ہاتھی اور انسان، وجود کے اعتبار سے سب یکساں ہیں یعنی وجود سب میں مشترک ہے چیونٹی بھی موجود ہے. انسان بھی موجود ہے لیکن چیونٹی یا ہاتھی کا وجود اپنے اندر شبان عبدیت نہیں رکھتا. یہ شرف صرف انسانی وجود کو حاصل ہے اگر انسان اپنی خودی کو مستحکم کر لے تو اس کا وجود غیر فانی یا ابدی ہو جائے گا.
پس اگر تیرے ہنر میں خواہ وہ شاعری ہو یا مصوری یا موسیقی تعمیر خودی کا جوہر موجود نہیں تو یہ سارے فنون لطیفہ بالکل بیکار ہیں.
اس کے معنی یہ ہیں کہ خودی، معیار حسن قبح اور آرٹ کو خودی کا خادم ہونا چاہیے. مثلا وہ شاعری مذموم ہے جو مسلمان کے اندر جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا نہ کر دے.
اے مسلمان! یاد رکھ مکتب وکالج اور میکدہ خانقاہ آج کل دنوں مقامات میں نفی خودی کا درس دیا جاتا ہے اس لئے اگر تو ابدی زندگی کا طالب ہے تو کسی مرشد کامل کی صحبت میں بیٹھ کر ہمیشہ زندہ رہنے کا طریقہ سیکھ، تاکہ تو دنیا میں بھی زندہ رہ سکے. اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہ سکے.