جدت
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
سيما: پیشانی، ماتھا۔
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
اس نظم میں اقبال نے ہمیں جدت یعنی ندرت فکر کی قدروقیمت اور اس کے ثمرات سے آگاہ کیا ہے یعنی یہ بتایا ہے کہ اگر ہم دوسروں کے خیالات کی تقلید کے بجائے خود اپنی قوت، کی نشوونما کریں اور اس خداداد نعمت کو مرتبہ کمال پر پہنچائیں تو کیا نتیجہ ہوگا.
اے مخاطب! اگر تو اپنی خودی میں ڈوب کر، اپنی ذہنی قوتوں کو سیقل کرکے، بطور خود، اس کائنات میں غوروفکر کرے تو ایک عالم تیرے افکار کی روشنی سے منور ہو جائے گا.
بڑے بڑے آدمی تیرے خیالات سے استفادہ کریں گے بلکہ تو تسخیر، عناصر کرکے، کائنات پر حکمراں ہو جائے گا.
تیرے پاکیزہ اور بلند خیالات کی بدولت دنیا میں انقلاب رونما ہوسکتا ہے اور تیرے تخلیقی کارنامے، فطرت کے کارناموں سے بڑھ سکتے ہیں. ریڈیو، لاسلکی، ٹیلی ویژن، ٹیلیفون، یہ اور سینکڑوں ایجادات سب اجہتاد اور تحقیقی یاجدت فکر ہی کے ثمرات ہیں.
مجھے حیرت ہے کہ تو کیوں غیروں کے افکار کی تقلید کر رہا ہے؟ کیا تو اس قدر عاجز اور درماندہ ہے کہ اپنی خودی تک بھی تیری رسائی نہیں ہے؟ یعنی کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ تو اپنی خودی کو مرتبہ کمال تک پہنچا سکتا ہے. اگر تم ہمت کرے تو یہ کام چنداں مشکل نہیں ہے.