مرزا بیدل
ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد
یہ زمیں، یہ دشت، یہ کہسار، یہ چرخ کبود
چرخ کبود: نیلا آسمان۔
کوئی کہتا ہے نہیں ہے، کوئی کہتاہے کہ ہے
کیا خبر، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود
میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ
اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود
کشود: کھولنا۔
دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن
رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود
اگر دل میں زیادہ سے زیادہ کشادگی اور وسعت ہوتی تو اس باغ کا کوئی نشان نہ ملتا۔ مصیبت یہ ہے کہ دل میں کافی وسعت اور کشادگی موجود نہ تھی۔ (اس کی مثال یوں سمجھو کہ صراحی تنگ تھی جب اس میں شراب ڈالی گئی تو رنگ نکل کر باہر بیٹھ گیا۔
اس نظم میں، اقبال نے, عظیم آباد( پٹنہ) کے جلیل القدر فارسی شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا مشہور شعر پر تضمین کی ہے. یہ وہی بیدل ہیں جن کے تتبع کی کوشش غالب نے بھی کی تھی، چناچہ اس کی دشواری کو انہوں نے اس شعر میں بیان کیا ہے.
طرز بیدل رخیتہ لکھنا
اسداللہ خاں! قیامت ہے
واضح ہو کہ میرزا بیدل کا تتبع اس لیے دشوار ہے کہ ایک تو وہ آسان اور معمولی مضمون کو پیچیدہ اور مخلق طریق پر بیان کرتے ہیں. دوسرے یہ کہ وہ فلسفہ اور حکومت کے اکثر مشکل مسائل کو اپنی غزل کا موضوع بناتے ہیں.
مثلا غالب کا یہ شعر بیدل کے انداز بیان کی تتبع ہی کی وجہ سے دشوار ہوگیا ورنہ بات صرف اتنی سی ہے کہ عشق کی وفات کے بعد معشوق نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا کیونکہ پھر زمرہ عشاق میں، کوئی اس قابل نظر نہ آیا کہ اس پر بیدار کی جائے.
درخور عرض نہیں، جوہرِ بیداد ہوجا
نگہ ناز ہے سرمہ سے خفا میرے بعد
اقبال چونکہ غالب کا حشر دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے بیدل سے استفادہ تو کیا لیکن اس کے رنگ میں لکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی.
بیدل نے اپنے اس شعر میں اس مسئلہ پر اظہار رائے کیا ہے یہ کائنات حقیقی ہے یا غیر حقیقی؟ یہ وہی مسئلہ ہے جو قدیم زمانہ سے حکماء کے درمیان معرکتہ الآراء رہا ہے. چونکہ اقبال کو بھی اس مسئلہ سے دلچسپی تھی اس لیے انہوں نے اس شعر پر تضمین کردی کہتے ہیں کہ
سوال یہ ہے کہ یہ کائنات زمین، صحرا، پہاڑ، آسمان حقیقی ہے یا محض فریب نظر ہے؟
کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا واقعی موجود ہے، کوئی کہتا ہے کہ نہیں، اس کی کوئی کی حقیقت نہیں ہے، محض موہوم ہے.
لیکن میرزا بیدل نے اس مسئلہ کو بڑی خوبی کے ساتھ سمجھایا ہے. چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مومن کا قلب اگر اس قدر وسیع ہوتاکہ اللہ تعالی کی تمام تجلیات کو اپنے اندر لے سکتا تو کائنات کا وجود ہی نہ ہوتا، لیکن چونکہ مینا ( بوتل) تنگ تھی اس لیے رنگ مے تجلیات انوار الہیہ بوتل قلب مومن سے باہر جلوہ گر ہو گیا، یعنی کائنات موجود ہوگئی.
بالفاظ دگر کائنات کا وجود، حقیقی نہیں ہے بلکہ ظلی ہے یا کائنات کی حقیقت وجود نہیں بلکہ عدم ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے یہ پرتو ہے، اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا، خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ دنیا ذات کے اعتبار سے معدوم ہے تجلیات کے اعتبار سے موجود ہے.
نوٹ: میں نے جو مطلب لکھا ہے اس کے سمجھنے کےلئے ان تین باتوں کو مدنظر رکھنا اشد ضروری ہے.
یہ کائنات، بیدل کی رائے میں، تجلیات انور الہیہ کا مظہر ہے. اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.
مومن کا قلب تجلیات کا مہبط ہے. اگر اس میں وسعت ہوتی تو ساری تجلیات کو اپنے اندر جذب کر لیتا، لیکن اس میں اس قدر وسعت نہیں ہے اس لیے کائنات بھی عالم وجود میں آگئی.
کائنات کا وجود، حقیقی نہیں ہے بلکہ پرتو ہےکسی کے آئینہ کا اب خود بیدل کا ایک شعر پیش کرتا ہوں تا کہ ناظرین کو اس کا مسلک خود اس کی زبان سے معلوم ہوجائے.
راستی فتنہ انگیزاست سروقامتت
ہستی ماجزدروغ مصلحت آمیر نیست