مصور
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلد، عجمی بھی
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی
معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات
صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی، نئی بھی
فطرت کو دکھایا بھی ہے، دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
اس نظم میں اقبال نے مصوری کی حقیقت واضح کی ہے کہ حقیقی مصوری وہ ہے جس میں مصور کی شخصیت یا انفرادیت کا رنگ نمایاں ہو سکے. یعنی تصویر دیکھ کر ہم مصور کی ذہنی کیفیات کا اندازہ کر سکیں. کہتے ہیں کہ
ہندوستان کے مصوروں میں تخیّل کا فقدان ہے وہ سب مغرب کے فنکاروں کی تقلید کرتے ہیں، اپنی جدت فکر کا اظہار نہیں کرتے ان کی ذہنیت پست ہے اس لیے وہ تصویر میں کوئی ندرت پیدا نہیں کرسکتے. بلکہ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے مصوروں میں مشرقی طرز مصوری کا رنگ بھی نظر نہیں آتا.
اے مصور! مجھے تیرے کمالات میں بخوبی معلوم ہیں! تو مانی وبہزاد کے طرز سے بھی واقف ہے. اور جو شوار ینلڈ بلکہ مائیکل انجیلو کے اسلوب سے بھی آگاہ ہے یعنی تو مشرقی اور مغربی دونوں قسم کے مصوری کی نقالی کر سکتا ہے.
نیز، تو نے اپنی تصاویر میں فطرت کو دکھایا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے تو اپنی تصاویر میں اپنی خودی کو بھی تو ظاہر کر. یعنی ایسی تصاویر پیش کر جن سے تیری انفرادیت کا اظہار ہو سکے کیونکہ آرٹ، نقالی کا نام نہیں ہے بلکہ اچھوتے تخیلات کو مختلف رنگوں کے ذریعہ سے واضح کرنے کا نام ہے.