مناصب
ہوا ہے بندئہ مومن فسونی افرنگ
اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک
ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب
کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک
مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی
سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک
شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!
اس نظم میں اقبال نے ہندوستان کے ان مسلمانوں کی غیر اسلامی ذہنیت پر ماتم کیا ہے جنہوں نے بلند مناصب کے لیے مذہب اور ملت دونوں سے غداری کی کہتے ہیں کہ.
میں ان مسلمانوں کی ضمیر فروشی پر ماتم کرتا رہتا ہوں جنہوں نے چند روزہ زندگی کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کر کے انگریزوں سے جاگیریں خطاب یا عہدے حاصل کئے.
اے مسلمان! میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تیرے ان عہدوں کو قائم رکھے اور تو ساری عمر کتوں کے شکار میں مصروف رہے! کیونکہ تو نے ان نعمتوں کو اپنی خودی ضمیر اور ایمان جیسی بیش قیمت چیز انگریز کے ہاتھ بیچ کر خریدا ہے لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کیونکہ ہر عقل مند آدمی کو جانتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ.
کوئی حکمراں قوم، محکوم قوم کو حکومت میں شریک نہیں کیا کرتی وہ خطابات دے کر یہ عہدے عطا کر کے صرف غلاموں کی عقل وخرد خرید رہتی ہے تاکہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں استعمال کر سکے.