(Zarb-e-Kaleem-164) (اہل مصر) Ahle Misar Se

اہل مصر سے

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو
وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

ابوالہول: مصر میں احرام کے پاس ایک بہت بڑا بت ہے جو ایک چٹان کو تراش کر تیار کیا گیا ہے؛ اس کا دھڑ شیر کا ہے اور چہرہ انسان کا۔

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم
ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی
کبھی شمشیر محمد ہے، کبھی چوب کلیم


اس نظم میں اقبال نے مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ کسی نظام زندگی کو رائج کرنے کے لیے محض عقل کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ قوت بھی ضروری ہے اگر قوت نہ ہو تو دستورالعمل یا معاہدہ یا آئین کی قیمت ردی کاغذ کے پرزہ سے زیادہ نہیں ہوتی کہتے ہیں کہ.

ابوالہول نے جو کائنات کے قدیم اسرارورموز سے واقف ہے یہ نکتہ مجھے سمجھایا کہ.

جس چیز سے قوموں کی تقدیر دفعتہ بدل جاتی ہے وہ بے بہا چیز، قوت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ قوت وہ چیز ہے کہ حکماء کی عقل بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی. 

بقول شخصیکہ

بیکار ہے سب فلسفہ بندوق کے آگے

اگرچہ قوت کی صورت اور نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ قوت کی ضرورت ہر زمانہ میں رہی ہے اور نہ رہے گی. یہی قوت کبھی حضرت موسی کے عصا کی شکل میں نمودار ہوتی ہے کبھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے.
قوت کے بغیر آپ بہتر سے بہتر نظام حیات کو بھی دنیا میں نافد نہیں کرسکتے. اسی لیے قرآن مجید نے جہاں مومنوں کو بہترین امت قرار دیا ہے وہاں ان کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ ان میں نیکی کا حکم دینے کی طاقت ہوگی اگر یہ طاقت نہ ہو تو پھر مومن، مومن نہیں رہتا بلکہ راہب بن جاتا ہے.

………….. اے مسلمانوں تم بہترین قوم ہو جو انسانوں کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے اور تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ تم بھلائی اور نیکی کا حکم کرتے ہو.

اب یہ بات ایک معمول عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ نیکی کا حکم وہی شخص دے سکتا ہے جس میں حکم دینے کی قوت ہو.

حضرت اکبر الہ آبادی نے اسی نکتہ کو اس شعر میں بیان کیا ہے.

نہو مذہب میں گر، زور حکومت
تو وہ کیا ہے نراک فلسفہ ہے

‏ میں نے اس کا فارمولا بنایا ہے جو حسب ذیل ہے.
‏ دین یا مذہب
‏ فلسفہ یا تصوف

Comments are closed.

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: