جمعیت اقوام مشرق
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے
مسخر: تسخیر کیا گیا۔
دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبال نے اس نظم میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر مسلمانان عالم مسلمانوں کی حکومتیں متحد ہو جائیں تو دنیا میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے کہتے ہیں کہ.
میں نے مانا کہ مغربی اقوام نے سائنس میں بڑی ترقی کر لی ہے اور انسانوں کے علاوہ آج عناصر فطرت بھی ان کے محکوم ہیں لیکن اگر فلک پیر کے خالق کی نگاہ بدل جائے تو ان اقوام کی سطوت وشوکت کا ایک آن خاتمہ ہوسکتا ہے.
اور ان اقوام میں ایشیائی قوموں کو غلام بنانے کا جو منصوبہ باندھا ہے وہ سب یونہی دہرا کا دہرارہ جائے گا.
اس کی صورت یہ ہے کہ مسلمان وہ طریقہ اختیار کریں جس کی بناء پر خالق کائنات کی نگاہ بدل سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام مسلمانان عالم متحد ہوجائیں. اور جب وہ اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالی بھی ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اس کا قانون یہی ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنی زندگی کی گہرائیوں میں انقلاب پیدا نہیں کرتی. اللہ بھی اس کی تائید نہیں فرماتا.
پس اگر وہ طہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنالیں. یعنی جس طرح مغربی اقوام نے اپنی جمعیت بنائی ہے اشارہ ہے لیگ آف نیشنز کی طرف جس کا مرکز جنیوا تھا وہ بھی اپنی جمعیت بنا لیں تو گمان غالب یہی کہ دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے. یعنی کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے گی.