نفسیات حاکمی
یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ
آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری
رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری
اس نظم میں اقبال نے حکمران قوم کی ذہنیت یا پالیسی کی وضاحت کی ہے کہ جب حکمران قوم یہ دیکھتی ہے کہ محکوم قوم کے اندر بے چینی پیدا ہو چکی ہے اور ایجی ٹیشن کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے. تو وہ کمال عیاری سے کام لے کر اصلاحات کا کھلونا ہاتھ میں دے دیتی ہے اور اصلاحات کی ترقی یافتہ صورت درجہ نوابادیات کہلاتی ہے. یہ درجہ، غلامی ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے. چناچہ مصر کو دیکھ لیئجے، بظاہر یہ ملک آزاد ہے یہاں بادشاہ بھی ہے اس کا قصر بھی ہے، پارلیمان بھی ہے مجلس وزراء بھی ہے غرضکہ بظاہر سب کچھ ہے لیکن دراصل وہی ڈھاک کے تین بات والا مضمون ہے یعنی انگریز بہادر جس…….. میں اس ملک پر حکمراں تھا اسی طرح آج…….. میں بھی اسی کا تسلط ہے.
کہتے ہیں کہ یہ اصطلاحات، داخلی آزادی یا درجہ نوآبادیات بظاہر تو مہربانی ہے لیکن در پردہ صیاد کی بے مہری کا نشان ہے میرا احتجاج افسوس کہ میرے کام کچھ بھی نہیں آیا.
مجھے قفس سے تو باہر نکالا نہیں جو میں چاہتا ہوں ہاں میں اس میں کچھ مرجھائے ہوئے پھول بیشک رکھ دئے تاکہ میں اس کو گلشن سمجھ کر چیخ پکار سے باز آجاؤں. اور اپنے نفس کو یہ فریب دے سکوں کہ مجھے حقیقی آزادی نصیب ہوگئی.
نفسیات حاکمی
یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ
آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری
رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری
PSYCHOLOGY OF SOVEREIGNTY
This outward show of love so great is guise to hide the hunter’s hate: New songs for rescue that I sang against their stone deaf ears didn’t I bang.
Began to place in jail-like cage, such blossoms that had dried with age in mind he had this idea wrong that prey might ‘stay in cage for long.
(Translated by Syed Akbar Ali Shah)