جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش
جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش
پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش
شب دوش: گزری ہوئی رات۔
مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ
بندئہ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش
نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں
جو ہوا نالہ مرغان سحر سے مدہوش
نالہ مرغان سحر: صبح سویرے بولنے والے پرندوں کی آواز۔
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
شکر پارہ: ایک قسم کی مٹھائی۔
اس پرکیف اور پرسوز نظم میں اقبال نے بڑے دلکش انداز سے مسلمان نوجوانوں کو جہاد کی تلقین کی ہے اسی جہاد کی تلقین، جس کی وجہ سے انگلستان کی عورتیں، سولہویں صدی میں، اپنی ضدی بچوں کو یہ کہہ کر سلا دیا کرتی تھیں سوجا بچے سوجا! ترک آن پہنچنے یا آرہے ہیں!!
اسی جہاد کی تلقین جو انگریز علیہ ما علیہ کی نظر میں، مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم تھا، اور جس کی پاداش میں انہوں نے………. میں قلعہ دہلی کے سامنے، اکبرآبادی مسجد کو، زیر زمین دفن کردیا، اور اس کے اوپر ایڈورڈ ہفتم کا مجسمہ نصیب کر دیا. میری رائے میں یہ مسجد نہیں تھی، جو یوں مٹی کے نیچے چھپ گئی، انگریزوں نے مسلمانوں کی غیرت ملی کو خاک میں ملا دیا. کاش میری قوم کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوجائے. اور ہم اس مقدس خانہ خدا کو کو از سر نو زندہ کرسکیں!
اس نظم کا پہلا شعر، اقبال کے جذبات ملی ہی کا آئینہ دار نہیں ہے، ان کے کمال فن پر بھی شاید ہے. انہوں نے اپنی بات ایسے موثر انداز سے کہی ہے. کہ تعریف و توصیف کے لیے الفاظ نہیں ملتے. خصوصاً لفظ پھر بھی تو سارے شعر کی جان ہے اور اس کے اندر رجائیت اور یقین کا جو رنگ چھلکتا ہے، اس کا اندازہ صرف ذوق سلیم ہی سے ہوسکتا ہے.
(١) فرماتے ہیں کہ اے مسلمان! جس چراغ کے پرتوسے تیری گزشتہ شب روشن تھی، وہ چراغ، اگرچہ تیری غفلت اور حماقت کی وجہ سے بھجا، لیکن تو مایوس مت ہو. وہ چراغ جو پھر بھی روشن ہو سکتا ہے. غور کیجئے! اقبال نے کسی خوبصورتی کے ساتھ، ایک شعر میں ماضی، حال اور مستقبل، تینوں زمانہ جمع کر دیے ہیں.
(ا) شب دوش منور تھی یعنی زمانہ ماضی میں مسلمانوں، کو سربلندی حاصل تھی.
(ب) چراغ خاموش یعنی زمانہ حال میں وہ سربلندی حاصل نہیں ہے.
(ج) پھر روشن ہو سکتا ہے یعنی زمانہ مستقبل میں وہی سربلندی پھر حاصل ہوسکتی ہے.
لفظ پھر بھی پر غور کیجئے! کیا آپ کو اس لفظ کے پردہ میں اقبال کے جذبات طوفان نظر نہیں آتا؟
اب سوال یہ ہے کہ وہ چراغ کیا تھا، جس کے پرتو سے مسلمان کی شب گذشتہ منور ہوئی تھی؟ اقبال نے اگرچہ احتا اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن علم معانی کا مسلمہ اصول ہے. اشارہ میں جو لطف ہے، وہ صراحت میں کہاں ہے؟ ہر شخص باندک تامل اس کا جواب دے سکتا ہے کہ چراغ خاموش کنایہ ہے، جذبہ جہاد سے جو سرد ہو چکا ہے. وہی جذبہ جس کے سرد کرنے کے لیے انگریز نے……. سے….. یعنی کامل تیس سال تک علماء کے خلاف واردگیر کی مہم جاری رکھی. اور جب تک انہوں نے اپنی دانست میں ہر سچے عالم دین کو گرفتار کرکے کالے پانی نہیں بھیج دیا، اس مہم کو بند نہیں کیا. اور جب اس مہم کو بند کیا تو آئندہ اس جذبہ کا سدباب کرنے کی غرض سے پنجاب انتخاب ہفت کشور میں ایک نبی پیدا کیا، جس نے……. سے…….. تک بڑے زور اور حملوں کے ساتھ جہاد کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے، اپنا فرض منصبی ادا کیا.
غور سے دیکھو تو اقبال نے ہر کتاب میں مسلمانوں کو یہی پیغام دیا ہے کہ اپنے اندر جہاد کا جذبہ پیدا کرو. تاکہ انگریز سے انتقام لے سکو. پس میری رائے میں اقبال کی تعلیم خلاصہ دو لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے. جہاں سے محبت+ انگریز سے نفرت
نوٹ=
انہی دو باتوں کو منظر نظر رکھ کر میں نے کلام اقبال کی شرح کا بیڑا اٹھایا ہے. اللہ میری مدد فرمائے. آمین!
(٢) یاد رکھو! صرف وہی شخص زمانہ کا گلہ اور بدقسمتی کا شکوہ کرتا ہے. جو پست ہمت اور کم حوصلہ ہوتا ہے. مومن کبھی ناکامی سے مایوس نہیں ہوتا، اگر تقدیر یعنی اللہ کی مثیت کی بناء پر اسے کسی معاملہ میں کامیابی نصیب میں نہیں ہوتی، تو وہ اس نشتر نشین کو شہد نوش سمجھتا ہے. اس لئے وہ ہر ناکامی کے بعد دگنی طاقت سے کام لیتا ہے. اور انجام کار مشکلات پر غالب آتا ہے.
نوٹ=
مشہور انگریزی شاعر براؤننگ نے بھی اس موضوع پر ایک نظم لکھی ہے. جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ کوشش میں کبھی نہیں گئی تھی، اس لیے دوبارہ کوشش کرو، پس ناکامی باعث رنج وملال نہیں ہے. بلکہ عقلمند کے لیے پیام مسرت ہے. وغیرہ وغیرہ. اس نظم کا جو میں نے…… میں پڑھی تھی اس مصرع اب تک یاد ہے یعنی اگر یہ بات ہے کہ ناکامی پیغام مسرت ہے تو پھر ہر ناکامی کو خوش آمدید کہنا چاہیئے.
نوٹ=
میں نے اس شعر کی تشریح میں تقدیر کے معنی مشیت ایزدی کئے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ خود اللہ نے مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے کہ اے مسلمانو! یاد رکھو اس کائنات میں کوئی انسان، جن فرشتہ، بادشاہ شیطان، غرضکہ کوئی ہستی تمہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتی. اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے، تو صرف اللہ یعنی میرے حکم سے پہنچ سکتی ہے. پس دنیا میں کسی حکومت یا طاقت سے خوف زدہ یا مرعوب نہ ہونا. کیونکہ کسی میں تمہیں نقصان پہنچانے کی طاقت ہی نہیں ہے.
…………… اے میرے محبوب! آپ فرما دیجئے کہ ہمیں
………….. ہرگز کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی، سوائے
………….. اس تکلیف کے جو اللہ نے ہمارے لیے
…………. لکھ دی ہے وہی ہے، ہمارا کارساز
………….. پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں.
اس آیت کی شرح تو اس وقت لکھوں گا جب خدا کے فضل سے قرآن حکیم کی خصوصیات کے عنوان سے ایک مستقل کتاب لکھوں گا. اس وقت صرف اس بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ یہی آیت تو مسلمانوں کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی. جس کی بنا پر ان میں اس قدر طاقت پیدا ہوگئی تھی. کہ انہوں نے تسخیر ایران کے زمانہ میں، ایک دفعہ طغیانی کی حالت میں دریا کے اندر گھوڑے ڈال دئے تھے چنانچہ جب ساحل پر پہنچے تو ایرانی سپاہی یہ کہہ کر بھاگ کھڑے ہوئے. دیوان آمدند! دیوان آمدند!! کیونکہ انہیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ کوئی انسان طغیانی میں دریا کو عبور کر سکتا ہے. پس یہ لوگ انسان نہیں ہیں بلکہ دیو ہیں.
(٣) اے مسلمانو! یاد رکھو! اور نوجوانو! کان کھول کر سن لو! اگر تم نالہ مرغان سحر سے مدہوش ہو سکتے ہو، یعنی اگر تم کو بلبل کی آواز یا کسی عورت کی تصویر متاثر کرسکتی ہے، تم ہرگز میدان جنگ میں کار نمایاں انجام نہیں دے سکتے.
بات یہ ہے کہ میدان جنگ میں، شمشیر زنی وہ شخص کرسکتا ہے جو فولاد کا جگر رکھتا ہو، لیکن جو شخص عورتوں کی دلکش آواز سے مغلوب ہو سکتا ہے وہ دشمن کو کس طرح مغلوب کر سکتا ہے.
اس وقت ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا جو نہایت برمحل ہے.
شہزادہ مردانے، قلعہ گوالیار کے بعض ذمہ دار افسروں کو گرانبہا رشوت دیکھ کمند کے ذریعہ سے فرار ہونے کا انتظام کیا. رات کے ٣ بجے فرار ہونے سے قبل، یہ بیوقوف شہزادہ اپنی ہندو محبوبہ سے جس کا نام اس وقت یاد نہیں آتا رخصت ہونے کے لیے اس کے کمرے میں آیا جو گارڈ روم سے ملحق تھا. وہ وفا کی دیوی اس سے لپٹ گئی. اور بے اختیار چیخ مار کر رونے لگی اس کے چیخنے سے تمام سنتری دروازہ پر جمع ہوگئے اور راز فاش ہوگیا.
نوٹ=
میں نے اس ہندو عورت کو وفا کی دیوی سے تعبیر کیا ہے. وجہ یہ ہے کہ وفا کے اعتبار سے ہندو عورت اپنی نظیر نہیں رکھتی. واقف رموز عاشقی حضرت امیر خسرو دہلوی فرماتے ہیں.
در محبت چوں زن ہندو کے فرزانہ نسیت
سوختن بر شمع مردہ، کار ہر پروانہ نسیت
(۴) محراب گل کہتا ہے کہ اے پاکستان کے مسلمان نوجوان! میں دیکھتا ہوں کہ تیری طبیعت لہوولعب کی طرف مائل ہے. ابھی تک تیرے اندر نہ سمجھ بچوں کی سی عادتیں پائی جاتی ہیں. جو ہر دلکش اور میٹھی چیز کو دیکھ کر مچل جاتے ہیں، اور یورپ کے عیار جو تیرے ملک پر مسلط ہیں. ٹافی اور چاکلیٹ کی تجارت میں ماہر ہیں، ایسا نہ ہو کہ تو ان مٹھائیوں کی طرف مائل ہوکر، مقصد حیات سے غافل ہو جائے.
اس شعر میں اقبال نے بڑا زبردست نفسیاتی نکتہ بیان کیا ہے اگر کوئی شخص انگریزی مٹھائی پسند کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ انگریزی تہذیب کو بھی پسند کرنے لگے گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ انگریزوں کی سوسائٹی کو پسندیدہ نظروں سے دیکھے لگے گا اور جب یہ حالت رونما ہو جائے گی تو وہ ان کے خلاف صف آراء کیسے ہو سکتا ہے؟
شکرپارہ فروشی سے سنیما، ریڈیو، محافل رقص وسرود ہوٹلوں کی زندگی مغربی طرز معاشرت، اور مخلوط تعلیم بھی مراد ہو سکتی ہے اور یہ وہ نعمتیں ہیں، جو نوجوانوں کو میدان جنگ تو بڑی چیز ہے جدوجہد سے بھی بیگانہ بنا رہی ہیں. اس ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ آج کالج کا نوجوان لڑکیوں سے زیادہ اپنا وقت اور روپیہ جسمانی آرائش پر صرف کرتا ہے. اور لبسا اوقات اس پر عورت ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے.
(11)
Jis Ke Partou Se Munawwar Rahi Teri Shab-e-Dosh
Phir Bhi Ho Sakta Hai Roshan Woh Charagh-e-Khamosh
The lamp that once lighted your nights
Can again come to life and illumine your days.
Mard-e-Be Hosla Karta Hai Zamane Ka Gila
Band-e-Hur Ke Liye Nashtar-e-Taqdeer Hai Nosh
The man lacking in spirit alone complains of the times,
Fate’s lancet is an antidote for the free man.
Nahin Hangama-e-Paikar Ke Laeik Woh Jawan
Jo Huwa Nala-e-Murghan-e-Sehar Se Madhosh
That young man is not fit for life’s struggle
Who is lulled to sleep by bird’s songs.
Mujh Ko Dar Hai Ke Hai Tiflana Tabiat Teri
Aur Ayyar Hain Yourap Ke Shaker-Parah Farosh!
I am afraid of your childish nature;
The sweet‐sellers of Europe are too clever!