ابر کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
فلک بوس: آسمان کو چومنے والا یعنی بہت بلند۔
گل پاش: پھول برسانے والا۔
کبھی صحرا، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا، بحر مرا، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزہ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے درافشاں ہونا
ناقہ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا
ناقہ: اونٹنی۔
درافشاں: موتی بکھیرنا۔
غم زدائے دل افسردہ دہقاں ہونا
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانہ موجہ صرصر سے سنور جاتا ہوں
شانہ موجہء صرصر: ہوا کا جھونکا۔
دور سے دیدہ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
لب جو: ندی کنارے۔
سبزہ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں
زادہ بحر ہوں پروردہ خورشید ہوں میں
مزرع نوخیز: نئی اگی ہوئی کھیتی۔
زادہ بحر: جو سمندر سے پیدا ہوا ہو۔
چشمہ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچہ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے
قم: اٹھ، کھڑا ہو۔
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے
شبستانوں: امیر لوگوں کے سونے کی جگہ۔