(Bang-e-Dra-034) (تصویر درد) Tasveer-e-Dard

تصویر درد

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
منت کش تاب شنيدن: سننے کی طاقت کا احسان اٹھانے والی۔
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیات جاوداں میری، نہ مرگ ناگہاں میری
حيات جاوداں: ہمیشہ کی زندگی۔
مرگ ناگہاں: اچانک موت۔
مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
وہ گل ہوں میں، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم
ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم
میری ذات تو ایک انتباہ کرنے والی گھنٹی کی طرح سے ہے اس لیے کہ جب تڑپتا ہوں تو اس کا اظہار بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے اشعار میں کرتا ہوں، لیکن افسوس یہ ہے کہ انتباہ کے باوجود میری آہ و زاری پر کوئی کان نہیں دھرتا۔
ریاض دہر میں نا آشنائے بزم عشرت ہوں
خوشی روتی ہے جس کو، میں وہ محروم مسرت ہوں

مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی
میں حرف زیر لب، شرمندہء گوش سماعت ہوں
حرف زير لب: جو بات اتنی آہستہ کہی جائے کہ سنائی نہ دے۔
شرمندہء گوش سماعت: جو بات کان تک نہ پہنچے۔
پریشاں ہوں میں مشت خاک، لیکن کچھ نہیں کھلتا
سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں

یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں

خزینہ ہوں، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے
کسی کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں

نظر میری نہیں ممنون سیر عرصہء ہستی
میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں
ممنون: احسان مند۔
سير عرصہء ہستي: زندگی کے میدان کی سیر۔
نہ صہاہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
میں اس میخا نہء ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
صہبا: شراب۔
مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں

اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا
مرا آ ئینہ دل ہے قضا کے راز دانوں میں
جنون فتنہ ساماں: وہ دیوانگی جو فتنے اٹھائے۔
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا
لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں

نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں
تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
رزم آرائياں: لڑائی کے لیے صفیں باندھنا ۔
چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
عنادل:عندلیب کی جمع، بلبلیں۔
سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں

یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے
اسلوب فطرت: قدرت کا دستور۔
گام زن: چلنے والا۔
ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
ہويدا: ظاہر۔
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑں گا

مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا
چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا

دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے
گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے
مثال نقش پا: پاؤں کے نشان کی طرح یعنی پست۔
رہا دل بستہء محفل، مگر اپنی نگاہوں کو
کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے
دل بستہء محفل: محفل کا شیدائی۔
حيرت آشنا: حیرانی سے آشنائی رکھنے والا۔
فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی ادائوں پر
مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے

تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے

سراپا نالہ بیداد سوز زندگی ہو جا
سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
سپند آسا: حرمل کے دانے کی طرح کا جڑی بوٹی کا ایک بیج۔
صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے

زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے
چليپا: سولی۔
زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
بت پندار: تصوّر کا بت یعنی تصوّر۔
کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا
ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے
مقيد: قید کیا ہوا۔
مطلق: پوری طرح آزاد۔
ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو

نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا
بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو
بوالہوس: ہوس میں الجھا ہوا۔
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

نہ اٹھا جذبہء خورشید سے اک بر گ گل تک بھی
یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو

پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں
یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
مجروح الفت: محبت کے زخمی۔
فکر درماں: علاج کی فکر۔
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا
علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا
آزاد احسان رفو: زخم سلوانے کا احسان نہ لینا۔
شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
شکت رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا

تھمے کیا دیدئہ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں
عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا

بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا
چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا
اسير امتياز ماو تو: ما و تو کے فرق کا قیدی، ایک دوسرے میں فرق کرنے والا۔
یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو
تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا
استغنا: بے پروائی ۔
نہ رہ اپنوں سے بے پروا، اسی میں خیر ہے تیری
اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا

شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی
سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
بخت خفتہ: سوئی ہوئی قسمت۔
بیابان محبت دشت غربت بھی، وطن بھی ہے
یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے
دشت غربت: بے وطنی کا صحرا۔
محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے، صحرا بھی
جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے

مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا
چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے

جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے

وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی، کوہکن بھی ہے

اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو
مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟

سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
سکوت آموز: خاموشی سکھانے والا، چپ کرا دینے والا۔
نمیگردید کوتہ رشتہء معنی رہا کر دم
حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کر دم
مضمون کا سلسلہ مختصر نہ ہوتا تھا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا، یہ ایسا بیان تھا جو لامحدود تھی، لہذا اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہ تھا کہ خاموشی اختیار کر لوں۔

Comments are closed.

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: