پیام
عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
ذوقِ تپش: تڑپ کی لذت۔
شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے
مدار: انحصار۔
صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اُسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے
دہر: دنیا۔
گریۂ جاں گداز: ایسا رونا جس سے جان میں گداز پیدا ہو۔
تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے
ُرمۂ امتیاز: مراد ہے تعصب۔
عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
حسن ہے مست ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے
رسم و رہِ نیاز: عاجزی کا طریقہ۔
پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے
نشاط: خوشی۔
پیرِ مغاں: شراب خانے کا مالک۔
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے
بزم کُہن : پرانی تہذیب۔