مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہیں
مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہیں
یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں
رتو مے: شراب کے جلوے کی طرح۔ مثال
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
حجر: درخت اور پتھر۔ شجر،
نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں
ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں
بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی
کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہیں
غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی
حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں
میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں
ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!
جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں
مازني: اٹلی کا محب وطن راہنما جسے 1870 میں قید کر دیا اور وہ قید ہی میں مر گیا۔ یہ شعر غالبا بحری جہاز میں سفر کرتے ہوئے اٹلی کے میدانوں کو دیکھنے پر لکھے گئے۔
جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں