رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقیر
فغاں کہ تخت و مصلی کمال زراقی
زراقي: مکر و فن۔
کوشک: محل، دربار۔
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
داور محشر: روز حساب، قیامت کے دن۔
نہ چینی و عربی وہ، نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی
مرد آفاقي : دنیا کی نسبت سے آزاد۔
مے شبانہ کی مستی تو ہو چکی، لیکن
کھٹک رہا ہے دلوں میں کرشمہ ساقی
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
ترياقي: زہر کی دوا۔
عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
براقي: چمک، تب و تاب۔