(Bal-e-Jibril-134) (ایک نوجوان کے نام) Aik Naujawan Ke Naam

ایک نوجوان کے نام

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

امارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
استغنائے سلمانی: حضرت سلمان (رضی اللہ) جیسی بے نیازی اور ہر قسم کی محتاجی سے بالا ۔
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

Comments are closed.

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: