(Bang-e-Dra-190) (گاۓ اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن) Gaye Ek Roz Huwi Unth Se Yun Garam-e-Sukhan

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن
نہیں اک حال پہ دنیا میں کسی شے کو قرار

میں تو بد نام ہوئی توڑ کے رسی اپنی
سنتی ہوں آپ نے بھی توڑکے رکھ دی ہے مہار

ہند میں آپ تو از روئے سیاست ہیں اہم
ریل چلنے سے مگر دشت عرب میں بیکار

کل تلک آپ کو تھا گائے کی محفل سے حذر
تھی لٹکتے ہوئے ہونٹوں پہ صدائے زنہار
صدائے زنہار: نہ کی تکرار۔
آج یہ کیا ہے کہ ہم پر ہے عنایت اتنی
نہ رہا آئنہء دل میں وہ دیرینہ غبار

جب یہ تقریر سنی اونٹ نے، شرما کے کہا
ہے ترے چاہنے والوں میں ہمارا بھی شمار

رشک صد غمزئہ اشتر ہے تری ایک کلیل
ہم تو ہیں ایسی کلیلوں کے پرانے بیمار
کليل: چھلانگ۔
غمزئہ اشتر: اونٹ کا کودنا۔
ترے ہنگاموں کی تاثیر یہ پھیلی بن میں
بے زبانوں میں بھی پیدا ہے مذاق گفتار

ایک ہی بن میں ہے مدت سے بسیرا اپنا
گرچہ کچھ پاس نہیں، چارا بھی کھاتے ہیں ادھار

گوسفند و شتر و گاو و پلنگ و خر لنگ
ایک ہی رنگ میں رنگیں ہوں تو ہے اپنا وقار
و شتر و گاو و پلنگ و خر لنگ : بکری، اونٹ، گائے، شیر ، لنگڑا گدھا۔ گوسفند
باغباں ہو سبق آموز جو یکرنگی کا
ہمزباں ہو کے رہیں کیوں نہ طیور گلزار

دے وہی جام ہمیں بھی کہ مناسب ہے یہی
تو بھی سرشار ہو، تیرے رفقا بھی سرشار

دلق حافظ بچہ ارزد بہ میش رنگیں کن
وانگہش مست و خراب از رہ بازار بیار
حافظ کی گدڑی کو جس قیمت پر بھی ہو رنگین کرو اور اس انداز میں اسے بدمست کر کے بازار جاتے ہوئے پکڑ لاؤ۔

Comments are closed.

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: