(Asrar-e-Khudi-06) (اس بیان میں کہ جب خودی عشق اور محبت سے مضبوط ہو جاتی ہے تو وہ نظام کائنات کی ظاہری اور خفیہ قوّتوں کو اپنے تصرف میں لیکر مطیع کر لیتی ہے) Dar Biyan Aynke Chun Khudi Az Ishq-o-Mohabbat Mohkam Mee-Garadd

در بیان اینکہ چون خودی

در بیان اینکہ چون خودی از عشق و محبت محکم میگردد، قوای ظاہرہ و مخفیہ نظام عالم را مسخر می سازد

(اس بیان میں کہ جب خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جاتی ہے تو وہ نظام عالم کی ظاہری اور مخفی قوّتوں کو مسخر کر لیتی ہے۔)

از محبت چون خودی محکم شود

قوتش فرماندہ عالم شود

(جب خودی عشق الہی سے مستحکم ہو جاتی ہے؛ تو اس کی قوّت زمانے کی فرمانروا بن جاتی ہے۔)

پیر گردون کز کواکب نقش بست

غنچہ ہا از شاخسار او شکست

(بوڑھا آسمان جس نے ستاروں سے آرائش کی ہے، اس کی شاخوں کے غنچے (ستارے) ٹوٹ گرتے ہیں۔ (عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ انسانوں کی قسمت ستاروں کی گردش سے وابستہ ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی خودی مستحکم کر لیتا ہے وہ خود تقدیر کا فرمانروا ہو جاتا ہے اور ستارے اس کے سامنے بے معنی ہیں۔)

پنجہ ی او پنجہ ے حق می شود

ماہ از انگشت او شق می شود

(اس کا ہاتھ اللہ تعالے کا ہاتھ ہو جاتا ہے، اس (صلعم) کی انگلی کےاشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔)

در خصومات جہان گردد حکم

تابع فرمان او دارا و جم

(ایسا شخص دنیا کے معاملات کے فیصلے کرتا ہے؛ دارا و جم جیسے پادشاہ بھی اس کے حکم سے تابع فرمان ہوتے ہیں ۔)

با تو می گویم حدیث بوعلی

در سواد ہند نام او جلے

(میں تمہیں بو علی قلندر (رحمتہ اللہ) کا واقعہ سناتا ہوں؛ اطراف ہند میں ان کا نام مشہور ہے۔)

آن نوا پیرای گلزار کہن

گفت با ما از گل رعنا سخن

(‘باغ کہن ‘ کے اس ترانے سنانے والے نے ہم سے ‘گل رعنا’ کی بات کہی ہے۔)

خطہ ی این جنت آتش نژاد

از ہوای دامنش مینو سواد

(جنت کا یہ خطہ) جو بت پرستی کے باعث آتش نہاد بنا ہوا تھا ؛ اس کے دامن کی ہوا سے واقعی بہشت کا ٹکڑا بن گیا تھا۔)

کوچک ابدالش سوی بازار رفت

از شراب بوعلی سرشار رفت

(ان کا مرید بازار کی طرف گیا ، وہ حضرت بو علی کی شراب (معرفت) سے سرمست تھا۔)

عامل آن شھر می آمد سوار

ہمرکاب او غلام و چوبدار

(اس شہر کے حاکم کی سواری بھی ادھر سے گزری؛ حاکم کے ساتھ کئی غلام اور چوبدار تھے۔)

پیشرو زد بانگ اے ناہوشمند

بر جلو داران عامل رہ مبند

(ان میں سے ایک نے آواز دی کہ اے بے سمجھ! حاکم کے ہمراہیوں کا راستہ نہ روک۔)

رفت آن درویش سر افکندہ پیش

غوطہ زن اندر یم افکار خویش

(مگر وہ درویش سر جھکائے اپنے افکار میں مست اسی طرح چلتا رہا۔)

چوبدار از جام استکبار مست

بر سر درویش چوب خود شکست

(دوسری طرف سے چوبدار اپنے تکبر میں مست تھا ؛ اس نے درویش کے سر پر لاٹھی دے ماری۔)

از رہ عامل فقیر آزردہ رفت

دلگران و ناخوش و افسردہ رفت

(فقیر حکمران کے ہاتھوں آزردہ خاطر ، رنجیدہ ، ناخوش اور افسردہ گیا۔)

در حضور بوعلے فریاد کرد

اشک از زندان چشم آزاد کرد

(اس نے حضرت بو علی کے سامنے فریاد کی اور آنکھوں سے آنسو بہائے۔)

صورت برقی کہ بر کہسار ریخت

شیخ سیل آتش از گفتار ریخت

(اس کی فریاد سن کر شیخ پہاڑ پر گرنے والی بجلی کی مانند اپنی گفتگو سے شعلہ بار ہوئے۔)

از رگ جاں آتش دیگر گشود

با دبیر خویش ارشادی نمود

(ساتھ ہی اس کے اندر سے ایک اور طرح کی آگ نے سر اٹھایا؛ اپنے منشی کو بلا کر فرمایا۔)

خامہ را بر گیر و فرمانی نویس

از فقیری سوی سلطانی نویس

(قلم اٹھا اور فقیر سے پادشاہ کی طرف فرمان لکھ۔)

بندہ ام را عاملت بر سر زدہ است

بر متاع جان خود اخگر زدہ است

(میرے درویش کو تیرے عامل نے سر پر لاٹھی ماری ہے؛ گویا اس نے ایسا کام کیا ہے جو اس کی متاع جان کو جلا دے گا۔)

باز گیر این عامل بد گوھری

ورنہ بخشم ملک تو با دیگری

(اس بد نہاد عامل کو یہاں سے واپس بلا؛ ورنہ میں پیری بادشاہت کسی اور کو دے دوں گا۔)

نامہ ی آن بندہ ی حق دستگاہ

لرزہ ہا انداخت در اندام شاہ

(اس خدا رسیدہ بندے کے مکتوب نے بادشاہ کے بدن پر کپکپی طاری کر دی۔)

پیکرش سرمایہ ی آلام گشت

زرد مثل آفتاب شام گشت

(اس کے رگ و پے میں رنج و غم کا طوفان امڈ آیا؛ اور اس کا چہرہ آفتاب شام کی طرح زرد پڑ گیا۔)

بہر عامل حلقہ ی زنجیر جست

از قلندر عفو این تقصیر جست

(اس نے حاکم کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور قلندر سے اپنی غلطی کی معافی کا خواستگار ہوا۔)

خسرو شیرین زبان، رنگین بیان

نغمہ ہایش از ضمیر”کن فکان”

(امیر خسرو جو شیریں زبان اور رنگین بیان تھے؛ جن کے نغمے گویا ضمیر کائنات کے اندر سے پھوٹتے تھے۔)

فطرتش روشن مثال ماہتاب

گشت از بہر سفارت انتخاب

(جن کی فطرت چاندنی کی مانند روشن تھی ، انہیں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔)

چنگ را پیش قلندر چون نواخت

از نوائی شیشہ ی جانش گداخت

(جب امیرخسرو نے قلندر کے سامنے ساز سے نغمہ گایا ؛ تو ان کی آواز نے درویش کے شیشہء جاں کو پگھلا دیا۔)

شوکتی کو پختہ چون کہسار بود

قیمت یک نغمہ ی گفتار بود

(وہ سطوت جو پہاڑ کی مانند مستحکم تھی؛ ایک نغمہ نے اسے خرید لیا۔)

نیشتر بر قلب درویشان مزن

خویش را در آتش سوزان مزن

(درویشوں کے دل کو زخمی نہ کر؛ ایسا کرنا اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالنا ہے۔)

Comments are closed.

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: