حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگ و ہمالہ
حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگ و ہمالہ در معنی اینکہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوصہ ملیہ می باشد
(شیخ و برہمن کی حکایت اور گنگا و ہمالہ کا مکالہ اس مطلب کی وضاحت کے لیے کہ ملت کی زندگی کے تسلسل کا دار و مدار اپنی مخصوص روایات سے جمے رہنے میں ہے۔)
در بنارس برھمندی محترم
سر فرو اندر یم بود و عدم
(بنارس میں ایک معزز برہمن ہستی و نیستی کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔)
بہرہ ی وافر ز حکمت داشتی
با خدا جویان ارادت داشتی
(اس کے پاس فلسفے کا خاصہ ذخیرہ تھا؛ اور وہ اللہ والوں سے بھی ارادت رکھتا تھا۔)
ذہن او گیرا و ندرت کوش بود
با ثریا عقل او ھمدوش بود
(اس کا ذہن وسعت پذیر اور جدت طراز تھا؛ اس کی عقل رسا ثریا تک پہنچتی تھی۔)
آشیانش صورت عنقا بلند
مہر و مہ بر شعلہ ی فکرش سپند
(اس کا آشیانہ عنقا کی مانند بلند تھا ؛ اس کے شعلہ ء فکر پر مہر و ماہ حرمل کی مانند جلتے اور تڑپتے تھے۔)
مدتے میناے او در خون نشست
ساقی حکمت بجامش می نبست
(اس کی مینائے ذہن مدت تک خون میں ڈوبی رہی مگر ساقیء حکمت نے اس کے جام میں شراب نہ ڈالی۔)
در ریاض علم و دانش دام چید
چشم دامش طایر معنی ندید
(اس نے (مدت تک) علم و حکمت کے باغ میں دام بچھائے رکھا مگر اس کے جال کے حلقے کی آنکھ نے کوئی طائر معنی نہ دیکھا۔)
ناخن فکرش بخون آلودہ ماند
عقدہ ی بود و عدم نگشودہ ماند
(اس کے فکر کا ناخن (اپنا ذہن کرید کرید کر ) خون آلودہ ہو گیا مگر ہستی و نیستی کا عقدہ حل نہ ہوا۔)
آہ بر لب شاھد حرمان او
چہرہ غماز دل حیران او
(اس کے لبوں پر آہ رہتی جو اس کی مایوسی کی گواہی دے رہی تھی ؛ اس کے دل کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔)
رفت روزی نزد شیخ کاملی
آنکہ اندر سینہ پروردی دلی
(ایک دن وہ کسی صاحب دل شیخ کامل کی خدمت میں حاضر ہوا۔)
گوش بر گفتار آن فرزانہ داد
بر لب خود مہر خاموشی نہاد
(وہاں (پہنچ کر) اس نے اپنے لبوں پر مہر خاموشی لگا لی؛ اور اس دانا شیخ کی باتیں غور سے سننے لگا (فیض نظر کے لیے ضبط سخن چاہیے)۔
گفت شیخ اے طائف چرخ بلند
اندکی عہد وفا با خاک بند
(شیخ نے کہا کہ اے بلند آسمان کے طواف کرنے والے خاک کے ساتھ بھی تھوڑا سا عہد وفا وابستہ کر۔)
تا شدی آوارہ ی صحرا و دشت
فکر بیباک تو از گردون گذشت
(چونکہ تو (خود) صحراؤں اور جنگلوں میں آوارہ گردی کرتا ہے اس لیے بے قید فکر بھی آسمان کی حدود پھلانگ گیا ہے۔)
با زمین در ساز اے گردون نورد
در تلاش گوہر انجم مگرد
(اے آسمان پر پھرنے والے زمین کے ساتھ موافقت اختیار کر؛ ستاروں کے موتیوں کی تلاش میں نہ پھر۔)
من نگویم از بتان بیزار شو
کافری شایستہ ی زنار شو
(میں یہ نہیں کہتا کہ بتوں سے بیزار ہو جا؛ چونکہ تو کافر ہے اس لیے اپنے آپ کو زنّار کے قابل تو بنا۔)
اے امانت دار تہذیب کہن
پشت پا بر مسلک آبا مزن
(اے قویم تہذیب کے امانت دار اپنے ابا و اجداد کے مسلک کو ٹھکرا نہ دے۔)
گر ز جمعیت حیات ملت است
کفر ہم سرمایہ ی جمعیت است
(اگر قوم کی زندگی اتحاد سے ہے تو کفر بھی اتحاد کی بنیاد بن سکتا ہے۔)
تو کہ ھم در کافری کامل نہ ئی
در خور طوف حریم دل نہ ئی
(تو جو اپنے کفر میں بھی کامل نہیں ہے ؛ تو اس قابل نہیں کہ حریم دل کا طواف کر سکے۔)
ماندہ ایم از جادہ ی تسلیم دور
تو ز آزر من ز ابراہیم دور
(ہم دونوں تسلیم و رضا کے راستے سے دور پڑے ہوئے ہیں تو آزر سے دور ہے میں ابراہیم سے دور ہوں ( وفا داری بشرط استواری اصل ایمان ہے – غالب)۔
قیس ما سودائے محمل نشد
در جنون عاشقی کامل نشد
(ہمارا قیس محمل (لیلی ) کا سودائی نہ بن سکا؛ وہ عاشقی کے جنون میں کامل نہ ہوا۔)
مرد چون شمع خودی اندر وجود
از خیال آسمان پیما چہ سود
(جب، خودی کی شمع بدن کے اندر بجھ چکی ہو؛ تو افکار فلک پیما سے کیا حاصل۔)
آب زد در دامن کہسار چنگ
گفت روزی با ھمالہ رود گنگ
(دریائے گنگا نے دامن کوہ پر قبضہ جمایا؛ تو اس نے ایک روز ہمالہ سے کہا۔)
اے ز صبح آفرینش یخ بدوش
پیکرت از رودہا زنار پوش
(روز تخلیق کائنات سے تو برف پوش ہے؛ کئی ندیاں زنّار کی مانند تیرے بدن سے لپٹی ہوئی ہیں۔)
حق ترا با آسمان ہمراز ساخت
پات محروم خرام ناز ساخت
(اللہ تعالے نے تجھے آسمانوں کی بلندی عطا فرمائی ؛ مگر تیرے پاؤں کو خرام ناز سے محروم رکھا۔)
طاقت رفتار از پایت ربود
این وقار و رفعت و تمکین چہ سود
(جب تیرے پاؤں میں چلنے کی طاقت ہی نہ چھوڑی ؛ تو اس وقار ، بلندی اور تمکنت کا کیا فائدہ۔)
زندگانی از خرام پیہم است
برگ و ساز ہستی موج از رم است
(زندگی مسلسل چلنے کا نام ہے؛ موج کے وجود کا ساز و سامان حرکت ہے۔)
کوہ چون این طعنہ از دریا شنید
ہم چو بحر آتش از کین بر دمید
(پہاڑ نے دریا سے جب یہ طعنہ سنا تو وہ غصّے کے مارے آگ کے سمندر کی طرح بھڑک اٹھا۔)
گفت اے پہنای تو آئینہ ام
چون تو صد دریا درون سینہ ام
(اس نے کہا کہ تیری وسعت آئینے کی مانند میری جلوہ گاہ ہے؛ تیرے جیسے سینکڑوں دریا میرے اندر موجود ہیں۔)
این خرام ناز سامان فناست
ہر کہ از خود رفت شایان فناست
(تیرا یہ خرام ناز تیرے لیے فنا کا سامان ہے؛ جو کوئی بھی اپنے آپ کو چھوڑ دیتا ہے اسے موت آ جاتی ہے۔)
از مقام خود نداری آگہی
بر زیان خویش نازی ابلہی
(تو اپنے مقام سے آگاہ نہیں ، تو بیوقوف ہے جو اپنے نقصان پر فخر کرتی ہے۔)
اے ز بطن چرخ گردان زادہ ئی
از تو بہتر ساحل افتادہ ئی
(تو جو آسمان کے بطن سے پیدا ہوتی ہے ؛ تجھ سے وہ ساحل بہتر ہے جو اپنی جگہ پر قائم ہے۔)
ہستی خود نذر قلزم ساختی
پیش رہزن نقد جان انداختی
(تو نے اپنی ہستی سمندر کی نظر کر دی ہے اور اپنی جان کا سرمایہ خود ہی رہزن کو پیش کر دیا ہے۔)
ہمچو گل در گلستان خوددار شو
بہر نشر بو پی گلچین مرو
(باغ میں پھول کی طرح خود دار رہ؛ اپنی خوشبو پھیلانے کے لیے گلچیں کے پیچھے نہ بھاگ۔ (نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو، کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے)۔
زندگی بر جای خود بالیدن است
از خیابان خودی گل چیدن است
(زندگی یہ ہے کہ اپنی جگہ پر رہ کر نشو و نما حاصل کی جائے اور خودی کے خیابان سے پھول چنیں جائیں۔)
قرنہا بگذشت و من پا در گلم
تو گمان داری کہ دور از منزلم
(صدیوں گزر گئیں اور میں ایک جگہ پاؤں جمائے کھڑا ہوں؛ تو سمجھتی ہے کہ میں منزل سے دور پڑا ہوں۔)
ہستیم بالید و تا گردون رسید
زیر دامانم ثریا آرمید
(میری ہستی نے اتنی نشو و نما پائی ہے کہ میں آسمان تک پہنچ گیا؛ اور ثریا بھی میرے دامن کے نیچے آرام پا رہی ہے۔)
ہستی تو بے نشان در قلزم است
ذروہ ی من سجدہ گاہ انجم است
(تیری ہستی سمندر میں جا کر بے نشاں ہو جاتی ہے اور میری چوٹی پر ستارے بھی سجدہ کرتے ہیں۔)
چشم من بینای اسرار فلک
آشنا گوشم ز پرواز ملک
(میری آنکھ آسمان کے راز دیکھتی ہے اور میرے کان فرشتوں کی پرواز سے آشنا ہیں۔)
تا ز سوز سعی پیہم سوختم
لعل و الماس و گہر اندوختم
(چونکہ میں کوشش پیہم کے سوز سے جل رہا ہوں ؛ میں نے اپنے اندر لعل، الماس اور گوہر سمیٹ لیے ہیں ۔)
“در درونم سنگ و اندر سنگ نار
آب را بر نار من نبود گذار”
(میرے اندر پتھر ہیں اور پتھروں کے اندر آگ ہے؛ میری آگ تک پانی کی رسائی نہیں۔)
قطرہ ئی ؟ خود را بپای خود مریز
در تلاطم کوش و با قلزم ستیز
(اگر تو قطرہ ہے تو تو اپنے آپ کو اپنے پاؤں میں گرا، متلاطم ہو اور سمندر سے لڑ جا۔)
آب گوہر خواہ و گوہر ریزہ شو
بہر گوش شاہدی آویزہ شو
(گوہر کی آب و تاب کا خواہاں ہو؛ اور گوہر کا ٹکڑا بن کر کسی محبوبہ کا آویزہ ہو جا۔)
یا خود افزا شو سبک رفتار شو
ابر برق انداز و دریا بار شو
(یا بجلی بنانے گرانے والا اور دریا پر برسانے والا بادل بن کر خود افزا اور سبک رفتار ہو جا۔)
از تو قلزم گدیہ ی طوفان کند
شکوہ ہا از تنگی دامان کند
(تاکہ سمندر بھی اپنی تنگیء داماں کا گلہ کرے اور تجھ سے طوفان کی بھیک مانگے۔)
کمتر از موجی شمارد خویش را
پیش پای تو گذارد خویش را
(سمندر اپنے آپ کو موج سے کمتر سمجھے اور خود تیرے پاؤں میں ڈال دے۔)