قطعہ اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا یہ شعر نشاط آور و پر سوز طرب ناک میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
(Bal-e-Jibril-117) (تیرا تن روح سے نا آشنا ہے) Tera Tan Rooh Se Na-Aashna Hai
ترا تن روح سے ناآشنا ہے ترا تن روح سے ناآشنا ہے عجب کیا ! آہ تیری نارسا ہے تن بے روح سے بیزار ہے حق خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
(Bal-e-Jibril-116) (حکیمی نا مسلمانی خودی کی) Hakeemi, Na Musalmani Khudi Ki
حکیمی، نامسلمانی خودی کی حکیمی، نامسلمانی خودی کی کلیمی، رمز پنہانی خودی کی تجھے گر فقر و شاہی کا بتا دوں غریبی میں نگہبانی خودی کی!
(Bal-e-Jibril-115) (زمانے کی یہ گردش جاودانہ) Zamane Ki Ye Gardish Javidana
زمانے کی یہ گردش جاودانہ زمانے کی یہ گردش جاودانہ حقیقت ایک تو، باقی فسانہ کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ امروز:امروز۔ فردا:آنے والا کل۔
(Bal-e-Jibril-114) (کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی) Khule Jate Hain Asrar-e-Nihani
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی گیا دور حدیث 'لن ترانی' ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار *وہی مہدی، وہی آخر زمانی! آخری زمانے میں آنے والا ، مراد ہے مسلمانوں کے مہدی کے بارے میں عقیدہ
(Bal-e-Jibril-113) (رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے) Ragon Mein Vo Lahoo Baqi Nahin Hai
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
(Bal-e-Jibril-112) (دم عارف نسیم صبحدم ہے) Dam-e-Arif Nasim-e-Subah-Dam Hai
دم عارف نسیم صبح دم ہے دم عارف نسیم صبح دم ہے اسی سے ریشہ معنی میں نم ہے اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے شبانی: گلہ بانی، چرواہے کا کام۔
(Bal-e-Jibril-111) (یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا) Yehi Adam Hai Sultan Behar-o-Bar Ka
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا نہ خود بیں، نے خدا بیں نے جہاں بیں یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا!
(Bal-e-Jibril-110) (خدائی اہتمام خشک و تر ہے) Khudai Ehtemam-e-Khushk-o-Tar Hai
خدائی اہتمام خشک و تر ہے خدائی اہتمام خشک و تر ہے خداوندا! خدائی درد سر ہے ولیکن بندگی، استغفراللہ! یہ درد سر نہیں، درد جگر ہے
(Bal-e-Jibril-109) (خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے) Khirad Waqif Nahin Hai Naik-o-Bad Se
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے خرد بیزار دل سے، دل خرد سے!